Maktaba Wahhabi

367 - 702
گیا۔اگر نماز کے مسائل میں آپ کی وسعت علم نہ ہوتی تو آپ کو امام صلوٰۃ مقرر نہ فرماتے۔ حالانکہ حج کے مسائل عبادات میں سب سے مشکل ہیں ۔ پھر یہ کہ آپ نے حج اور نماز میں کسی بھی صحابی کو اپنا نائب مقرر نہیں کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے بارے میں جو کتاب مرتب کرائی تھی حضرت انس رضی اللہ عنہ نے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حاصل کی تھی۔[1] زکوٰۃ کے بارے میں جس قدر احادیث روایت کی گئی ہیں یہ ان سب میں صحیح تر ہے۔ فقہاء نے بھی اسی پر اعتماد کیاہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے عین برخلاف کسی شرعی مسئلہ میں بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے غلطی سرزدنہیں ہوئی تھی۔ [2] جبکہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بہت سارے مسائل میں کئی ایک غلطیاں ہوئیں ۔اس کی تفصیل اپنے مقام پر موجود ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین کئی ایک مسائل میں اختلاف واقع ہوا ہے ۔ مثال کے طور پر : میراث کے مسائل میں سے : دادا کے ساتھ بھائی کی میراث؛ عمریتین کا مسئلہ؛ عول کا مسئلہ۔ طلاق کے مسائل میں سے : ایک مجلس میں تین طلاق ؛ حرام کہہ کر طلاق ؛ بریہ اور خلیہ اور طلاق بتہ کا مسئلہ ۔ اور ان کے علاوہ طلاق کے دیگر مسائل۔ جن مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف ہوا تھا یہ اختلاف آج تک اپنی جگہ پرامت میں موجود ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں اختلاف فقط اجتہادی مسئلہ تھا۔ان میں سے ہر ایک اپنے بھائی کے اجتہاد اور اس کی رائے کا احترام کرتاتھا۔ جیسا کہ فقہاء کرام اہل علم و دین میں اختلاف ہوتا ہے۔ جب کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت اختلاف زیادہ سخت ہوگیا ؛ یہاں تک کہ آپس میں درشت کلامی تک نوبت پہنچی ؛ مگر نہ ہی کوئی ہاتھا پائی ہوئی اور نہ ہی سنگ و سناں کا استعمال ہوا ؛ اورنہ ہی کوئی دیگر اس طرح کا معاملہ ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت یہ اختلاف بہت بڑھ گیا؛ بات تیر و تفنگ تک جا پہنچی اور مسلمان اپنی تلواروں سے اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے لگے۔ جب کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد مسعود میں مسائل دین میں سے کسی ایک مسئلہ میں اختلاف کے پختہ ہونے کی
Flag Counter