Maktaba Wahhabi

338 - 702
بنان میں اور ایک وجود عینی اور علمی اور منطقی اور رسمی ہے۔ جیسے شمس اور کعبہ جو خارج میں موجود ہیں ۔ پھر انسان شمس کو دیکھ کر نفس میں اس کاتصور بناتاہے، پھر شمس اور کعبہ کو ورق پر لکھتا ہے۔ پس جب وہ لکھ لیتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ’’یہ رہا آسمان میں آفتاب؛ اور یہ رہا وہ کعبہ جس کی طرف رخ کر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں ؛ کہ اس وقت لکھے لفظوں والا شمس اور کعبہ مراد نہیں ہوتا۔ بلکہ ان الفاظ کا معروف معنی مراد ہوتا ہے۔ جیسے ایک آدمی ’’یا زید‘‘ پکارتا ہے، تو وہ آواز کو نہیں پکارتا۔ اور جب کہتا ہے ’’میں نے زید کو مارا‘‘ تو مراد حروف کو مارنا نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ معروف ہے کہ جب اسماء بولے جاتے ہیں مراد وہ مسمیات ہوتے ہیں جن پر اسماء دلالت کر رہے ہوتے ہیں ۔ اور جب اسماء لکھے جاتے ہیں تو خط سے وہ مراد ہوتا ہے جو لفظ سے مراد ہوتا ہے اور جب ورق پر لکھے لفظ کو کہا جاتا ہے کہ یہ حجاز کا کعبہ ہے تو مراد اسم لفظی کا وہ مسمّٰی ہوتا ہے جو خط کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں جن کو ہر ایک جانتا ہے۔ اور جب نفس کے اندر موجود بات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خارج میں بعینہٖ یہ موجود نہیں ہے؛ تو وہ نفس میں تصور کے اعتبار سے خارج میں موجود ہوتا ہے لیکن یہ اس کے اسی طرح مطابق ہوتا ہے جیسے معلوم علم کے مطابق ہوتا ہے۔ جب ’’کلی طبیعی فی الخارج‘‘ کہا جاتا ہے تو وہ اس اعتبار سے یعنی خارج میں وہ پایا جاتا ہے کہ جس کے مطابق یہ کلی طبیعی ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ایسا مطلق ہے جو کسی شرط کے بغیر ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ معینات کے مطابق ہو گا۔ بخلاف مطلق بشرط الاطلاق کے؛ کہ وہ معینات کے مطابق نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ خارج میں ایک امر کلی ہے جو بعینہٖ مشترک ہے اور وہ مشترک دونوں معینات میں موجود ہے تو یہ قطعاً باطل ہے۔ اگرچہ یہ ایک جماعت کا قول ہے اور انھوں نے ایسی ماہیات کو ثابت کیا ہے جو خارج میں معینات سے خالی ہوتی ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ:’’ اس ماہیت کو دوسری چیزوں سے ڈھانپ رکھا ہوتا ہے اور یہ کہ ماہیت کے اسباب، وجود کے اسباب کے علاوہ ہیں ۔ ہم نے منطق پر کلام میں اور ’’اشارات‘‘ پر کلام میں اس پر مفصل گفتگو کر دی ہے اور بتلایا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو بات اذہان میں متصور ہوتی ہے، وہ اعیان میں موجود نہیں ہوتی ۔اور جس نے ماہیت سے مراد مافی الذہن کو اور وجود سے مراد ما فی الخارج کو لیا ہے تو وہ اپنے اس قول میں درستی پر ہے۔کہ وجود یہ ماہیت کے مغایر ہے۔ البتہ جب اس نے ماہیت سے مراد مافی الخارج کو اور وجود سے بھی ما فی الخارج کو مراد لیا ہے اور اسی طرح ماہیت سے مافی الذہن کو اور وجود سے مافی الخارج کو مراد لیا ہے اور اس بات کا دعوی کیا ہے کہ ذہن میں بھی دو چیزیں ہیں اور خارج میں بھی دو چیزیں ہیں اور وہ وجود اور ماہیت ہے۔ تو یہ ایک ایسا خیال ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور اس تفصیل سے اس مقام پر پیدا ہونے والا شبہ بھی جاتا رہتا ہے۔
Flag Counter