Maktaba Wahhabi

328 - 702
تمھارے لیے یہی ایک مسئلہ کہ ’’رب تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کو پیدا کیا ہے‘‘ بطور کے مثال کے کافی ہے کہ اس کتاب میں اس مسئلہ کی بابت صرف قدریہ، جہمیہ اور دہریوں کا ہی قول ملتا ہے۔ یا تو یہ وہ علت ہے جسے فلاسفہ دہریہ ثابت کرتے ہیں ، یا وہ قادر ہے جسے معتزلہ اور جہمیہ ثابت کرتے ہیں ۔ پھر اگر وہ کلابیہ میں سے ہے تو کلابیہ والا ارادہ ثابت کرتا ہے۔ان اقوال کے حقائق جاننے والے کے سامنے یہ بات عیاں ہے کہ یہ اقوال کتاب و سنت اور ائمہ اسلاف کے اجماع کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقل صریح کے بھی خلاف ہیں ۔ پھر نبوتوں کے بارے میں ان لوگوں کے اقوال کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ چنانچہ متفلسفہ اپنی اس اصل فاسد کے مطابق نبوت کو ثابت کرتے ہیں کہ نبوت ایک قدسی طاقت ہے جو بعض نفوس کے ساتھ خاص ہے۔ کیونکہ ان نفوس میں علم کو پانے کی طاقت و قوت زیادہ ہوتی ہے اور ان کی عالم میں تاثیر بھی زیادہ قوی ہوتی ہے اور ان میں تخیل کی طاقت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ صور متخیلہ اور اصواتِ متخیلہ میں ان کو سمجھتی ہیں ۔ ان متفلسفیوں کے نزدیک ایک نبی کے یہ تین خواص ہوتے ہیں ۔ لہٰذا جو بھی ان خواص کے ساتھ متصف ہو گا وہ قدسی و علمی قوت والا نبی ہو گا اور ہیولی میں تاثیر، نفس میں اصوات کا تصور کہ یہ کلام اللہ ہے اور ان کے نزدیک نفس میں متخیل بعض صورتیں ملائکۃ اللہ ہیں ۔ عالم کو معتبر جاننے والے کے نزدیک یہ بات معلوم ہے کہ یہ قدر بے شمار لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ بے شمار لوگوں کو ان تین ذکر کردہ اور مجوزہ خصائص میں سے حصہ ملا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگوں نے نبی بننے کی طمع کی۔ اسی لیے ان لوگوں نے نبوت کو کسی بتلایا۔ ان لوگوں نے یہ قول صرف اس لیے کیا تھا کہ یہ لوگ اللہ کے لیے جزئیات کے علم کو، قدرت کو اور ایسے کلام کو ثابت نہیں کرتے جس سے فرشتوں کے ساتھ کلام کرتا ہے اور فرشتے وہ کلام لے کر پیغمبروں پر اترتے ہیں ۔ پھر جہمیہ اور معتزلہ کبھی تو ان کا لوگوں کا کمزور ردّ کرتے ہیں اور کبھی پورا پورا ردّ کرتے ہیں ؛کیونکہ یہ لوگ صانع عالم کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ دو متماثل اشیاء میں سے ایک کو بلا مرجِّح کے راجح کر دیتا ہے۔ انھوں نے ایک قادر و مختار کو بلا مرجِّح کے راجح کرنے والا قرار دے دیا۔ ان میں سے اکثر کا یہ گمان ہے کہ قدرت اور دائمی تام کے وجود کے باوجود فعل کا وجود واجب نہیں ۔ یہ لوگ موجب بالذات سے گھبراتے ہیں ۔ پھر موجب بالذات کا لفظ مجمل ہے۔ اورفلاسفہ نے اس کی باطل تفصیل بیان کی ہے ۔ کیونکہ وہ موجب بالذات کو صفات سے خالی اور اپنے مفعولات کو مستلزم بنا کر ثابت کرتے ہیں ؛ تاکہ کوئی چیز اس سے متاخر نہ ہو اور انھوں نے اس کے لیے ایسی وحدت کو ثابت کیا جو اس کی صفات اور اس کے ساتھ قائم افعال کی نفی کو متضمن ہے۔ ان کا قول ہے کہ واحد سے واحد کا صدور ہی ممکن ہے۔ ان کے پیش کردہ واحد کی حقیقت نہ تو اذہان میں پائی جاتی ہے اور نہ اعیان میں ۔ ہم نے ان مذاہب پر اور ان کے بطلان پر دیگر مواقع میں مفصل کلام کر دیاہے ؛اور بتایا ہے کہ اس بارے اکثر لوگ تناقض اور اضطراب کا شکار ہیں اور یہ کہ ان کا یہ دعویٰ کہ وہ دراصل ازل اور ابد میں معلول کی علت ہے، کئی اعتبار سے
Flag Counter