Maktaba Wahhabi

314 - 702
اقسام کیونکر نہ ہوں گی بلکہ یہ کلام ان سب انواع و اقسام کے ساتھ موصوف ہو گا؟ پھر رب تعالیٰ نے اس بات کی بھی خبر دی ہے کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس شجر کے پاس تشریف لے گئے تھے تو رب تعالیٰ نے انھیں اس وقت وہ آواز دی تھی جو ازل میں نہ دی تھی۔ اسی طرح یہ ارشاد فرمایا: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ﴾ (الاعراف: ۱۱) ’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھارا خاکہ بنایا، پھر ہم نے تمھاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُo﴾ (آل عمران: ۵۹) ’’بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہو جا، سو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃَ﴾ (البقرۃ: ۳۰) ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا۔‘‘ قرض قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ایسا کلام واضح کرتا ہے کہ رب تعالیٰ نے اس مذکورہ کلام کے ساتھ اس وقت کلام فرمایا تھا۔ تب پھر وہ کلام ازلی اور ابدی کیونکر ہو سکتا ہے جو ہمیشہ سے تھا اور ہمیسہ رہے گا اور ان ارشاداتِ مبارکہ میں رب تعالیٰ کا کلام لم یزل و لا یزال کیونکر ہو سکتا ہے؟! ﴿یٰنُوْحُ اہْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا﴾ (ہود: ۴۸) ’’اے نوح! اتر جا ہماری طرف سے عظیم سلامتی کے ساتھ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعَکَ اِلَیَّ﴾ (آل عمران: ۵۵) ’’اے عیسیٰ! بے شک میں تجھے قبض کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا﴾ (طٰہٰ: ۱۴) ’’بے شک میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یاََیُّہَا الْمُزَّمِّلُo قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًاo﴾ (المزمل: ۱۔۲)
Flag Counter