Maktaba Wahhabi

313 - 702
پھر بعض لوگ یہ کہتے ہیں : نہیں بلکہ یہ قرآن قدیم ہے اور ازل سے اور ابد تک اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور جب وہ قرآن کے ساتھ تکلم کرتا ہے تو اپنی قدرت و مشیت کے ساتھ کلام نہیں کرتا۔ اس کی موسیٰ علیہ السلام کو ندا ازلی تھی، اور اسی طرح اس کا یا ابراہیم، یا موسی اور یا عیسیٰ وغیرہ کہنا بھی ازلی تھا۔ پھر یہ دونوں جماعتیں ایک جماعت بن گئیں اور یہ کہنے لگیں کہ جو چیز قدیم ہو اس کا ازل سے حروف ہونا یا حروف اور اصوات ہونا ممتنع ہے، کیونکہ حروف متعاقب یعنی ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا باء یہ سین سے پہلے اور رہی آواز تو وہ باقی نہیں رہتی، بلکہ وہ ایک چیز کے بعد ایک چیز ہوتی ہے، جیسے حرکت۔ لہٰذا یہ بات ممتنع ٹھہرے گی کہ جو آواز موسیٰ علیہ السلام نے سنی تھی وہ ازلی و ابدی ہو۔ پس یہ لوگ کہتے ہیں : اس کا کلام ایک معنی اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ہر مامور کا مر اور ہر منہی عنہ چیز کی نہی اور ہر دی جانے والی خبر کی خبر ہے۔ اگر اس ی تعبیر عربی زبان سے ہو تو وہ قرآن کہلائے گا، اگر یہ تعبیر عبرانی میں ہو تو تورات ٹھہرے گی اور اگر اس کی تعبیر سریانی میں ہو تو انجیل قرار پائے گی اور یہ کہ یہ معنی ہر مامور کا امر، ہر منہی عنہ کی نہی اور ہر دی جانے والی خبر کی خبر ہے اور اس کا امر یا نہی یا خبر ہونا، یہ رب تعالیٰ کی اضافی صفات ہیں ۔ جیسے ہمارا یہ قول ہے کہ زید باپ بھی ہے اور چچا بھی اور ماموں بھی ہے اور یہ اس کی انواع نہیں ہیں اور کلام ان دونوں کی طرف منقسم نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ رب تعالیٰ نے نہ تو قرآن کا عربی کے ساتھ اور نہ تورات کا عبرانی کے ساتھ اور نہ انجیل کا سریانی کے ساتھ تکلم کیا ہے اور نہ موسی اور کسی اور نے اس سے اپنے کانوں کے ساتھ آواز ہی سنی ہے۔ البتہ رب تعالیٰ نے اس قرآن کو عربی میں دوسرے میں پیدا کیا ہے۔ یا اسے جبرئیل علیہ السلام یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے ایک معنی سے رب تعالیٰ کی مراد کو سمجھایا جا سکے۔ لیکن جمہور کا ان لوگوں کو یہ جواب ہے کہ تمھارا یہ قول صریح منقول اور صحیح معقول دونوں کے ہی خلاف ہے۔ کیونکہ ہم اس بات کو ضرور بالضرور جانتے ہیں کہ جو معنی آیت الکرسی کا ہے، وہ معنی آیت دَین کا نہیں اور جو معنی ’’قل ہو اللہ احد‘‘ کا ہے وہ ’’تبت یدا ابی لہب‘‘ کا معنی نہیں ۔ لوگوں نے جب تورات کا عربی زبان میں ترجمہ کیا، تو اس کے ایسے معانی بھی سامنے آئے جو قرآن میں نہیں تھے اور اس بات کو قطعی طور پر جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے بدر، احد اور خندق سے متعلق جو باتیں قرآن کریم میں نازل فرمائی ہیں وہ رب تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل نہیں فرمائیں ، جیسا کہ رب تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یوم سبت کی تحریم کو، اسی طرح بچھڑے کے پجاریوں کے قتل کے امر کو نازل نہیں فرمایا۔ تب پھر رب تعالیٰ کا سارے کا سارا ’’ایک معنی‘‘ کیونکر ہو سکتا ہے؟ پھر ہم یہ بھی بالضرور جانتے ہیں کہ کلام کے معانی اور حروف خبر اور انشاء کی طرف منقسم ہوتے ہیں ۔ انشاء کی ایک طلب ہے جو امر اورنہی میں تقسیم ہوتی ہے۔ پھر جو طلب کی حقیقت ہے، وہ خبر کی حقیقت نہیں ۔ تب پھر یہ کلام کی انواع و
Flag Counter