Maktaba Wahhabi

311 - 702
جبکہ اہل سنت کے نزدیک وہ اللہ ہی ہے جو ابرار کو ابرار اور مسلمانوں کو مسلمان بناتا ہے اور ان کے نزدیک رب تعالیٰ جس بند کو امر کرتا ہے اور اسے اس فعل کا فاعل بناتا ہے تو وہ بندہ اس فعل کا فاعل بنتا ہے اور اگر وہ اس بندے کو اس فعل کا فاعل نہ بنائے تو وہ بندہ اس فعل کا فاعل نہیں بنتا۔ پس رب تعالیٰ نے اہل ایمان و طاعت سے ایمان اور طاعت دونوں کا امر اور خلق دونوں اعتبار سے ارادہ کیا ہے۔ پس، وہ انھیں امر بھی دیتا ہے اور اس امر پر ان کی اعانت بھی کرتا ہے اور انھیں اس فعل کا فاعل بناتا ہے۔ اگر رب تعالیٰ بندوں کی اپنی طاعت پر اعانت نہ فرماتا تو وہ اس کی طاعت نہ کرتے۔ رہے کافر اور نافرمان تو رب تعالیٰ نے انھیں طاعت کا امر فرمایا ہے لیکن انھیں مطیع نہیں بنایا اور نہ ان کی طاعت کو پیدا فرمانے کا ارادہ ہی کیا ہے۔ لیکن انھیں طاعت کا امر دیا ہے اور اس کا ان سے شرعی اور دینی ارادہ کیا ہے۔ کیونکہ اگر یہ اس کی طاعت کرتے ہیں تو اس میں ان کی منفعت اور خیر ہے اور خود اس نے اس طاعت کو پیدا فرمانے کا ارادہ نہیں کیا کیونکہ اس میں اس کی حکمت ہے۔ جب رب تعالیٰ طًاعت کے وجود کی تقدیر پر طاعت سے محبت کرتا ہے تو یہ ایک ایسے امر کو مستلزم ہو گا جو اسے ناپسند ہے یا ایسے امر کے فوات کو مستلزم ہو گا جو اسے اس سے زیادہ پسند ہو گا، اور اس کا دور کرنا اسے اس محبوب کے حصول سے زیادہ محبوب ہو گا۔ لہٰذا مکروہ کے دور کرنے کے لیے اس محبوب کو ترک کرنا اسے اس کے وجود سے زیادہ محبوب ہو گا۔ جیسا کہ محبوب کے وجود کو مستلزم مکروہ کا وجود، رب تعالیٰ اسے اس کی وجہ سے اپنی مراد بنا لیتا ہے، جبکہ مکروہ جو وسیلہ ہو، اسے معدوم کرنے کے لیے اس کی اس چیز سے محبت دوسری چیز سے محبت سے زیادہ بڑی ہو۔ یہ بات بھی نہیں کہ تم جسے بھی نصیحت کرو تو تمھاری اس مامور بہ پر اس کی اعانت بھی لازم ہے۔ چنانچہ انبیاء کرام علیہم السلام اور صالحین ہمیشہ لوگوں کو نصیحت کرتے اور انھیں حکم دیتے چلے آئے ہیں اور انھیں ان باتوں کی طرف راہنمائی کرتے رہے ہیں جن پر عمل پیرا ہونا ان کے حق میں نافع اور خیر ہوتا ہے۔ لیکن وہ ان افعال پر ان کی معاونت نہیں کرتے حالانکہ وہ اس پر قادر ہوتے ہیں ۔ لیکن ان حضرات کی حکمت کا مقتضی یہ ہوتا ہے کہ چند اسباب کی بنا پر وہ ایسا نہ کریں ۔ اب رب تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز کے منافی اس کی ایک ضد بھی ضرور ہوتی ہے اور اس چیز کا ایک ناگزیر لازم بھی ہوتا ہے۔ اب ضدین کا اجتماع یا لازم کے بغیر ملزوم کا وجود دونوں باتیں ممتنع ہیں ۔ اب یہ دونوں ضدیں رب تعالیٰ کے مقدور میں ہیں اور اللہ ان کی تخلیق پر قادر ہے لکین دوسرے کے عدم کی شرط پر۔ رہا ضدین کا اجتماع تو یہ بالذات ممتنع ہے۔ لہٰذا رب تعالیٰ کے اس بات پر قادر ہونے سے کہ وہ دونوں کو پیدا کرنے پر قادر ہے، یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں میں سے ایک دوسرے کے ہوتے ہوئے موجود بھی ہو گی۔ اب بسا اوقات بندوں کو دو چیزوں میں تنافی یا تلازم کا علم نہیں ہوتا اور وہ امتناع کو نہیں جانتے ہوتے اور وہ اسے رب تعالیٰ کو محبوب اور مطلوب کے حصول کے ساتھ ممکن الوجود گمان کر بیٹھتے ہیں ۔ یاد رہے کہ امکانا کے علم میں اور امتناع کے عدمِ علم میں دونوں میں فرق ہے۔ اب بندوں کو امتناع کا عدمِ علم تو ہوتا
Flag Counter