Maktaba Wahhabi

303 - 702
بلکہ رب تعالیٰ کا تو یہ بھی ارشاد ہے: ﴿قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ﴾ (التوبۃ: ۲۴) ’’کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔‘‘ چنانچہ مال اور اہل و عیال اللہ اور رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہو رب تعالیٰ نے اسے ڈرایا ہے۔ صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ موجود ہوں وہ ان کی وجہ سے ایمان کی حلاوت پا لیتا ہے (۱) جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ محبوب ہو۔ (۲) جو کسی سے محبت کرے اور صرف اللہ کے لیے ہی محبت کرے۔ (۳) اور جسے کفر میں لوٹنا بعد اس بات کے کہ رب تعالیٰ نے اسے کفر سے نکال لیا ایسے ناپسند ہو جیسے آگ میں ڈال دیا جانا ناپسند ہو۔‘‘[1] پس دل میں ایمان کی حلاوت کا پایا جانا یہ اس عوض کی محبت کی وجہ سے نہیں جو ابھی تک حاصل بھی نہیں ہوا۔ بلکہ اجرت کے لیے عمل کرنے والا عمل کرتے وقت تعب و تکان اور رنج و الم کے سوا کچھ نہیں پاتا۔ پس اگر تو اللہ اور رسول کی محبت کا مطلب صرف مآل کار حاصل ہونے والا اجر و ثواب ہی ہوتا تو بندہ اس دار الامتحان و لتکلیف میں اس محبت کی دل میں حلاوت کو ہرگز نہ پاتا اور یہ بات خلافِ شرع بھی ہے اور اس فطرت کے بھی خلاف ہے جس پر رب تعالیٰ نے بندوں کے قلوب کو پیدا فرمایا ہے۔ صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘ اور صحیح مسلم میں مروی ہے کہ ’’رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : میں نے اپنے بندوں کو حنیف پیدا کیا ہے، پس شیطان انھیں اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں ، پس وہ ان پر ان چیزوں کو حرام کر دیتے ہیں جن کو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اور انھیں حکم دیتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک ٹھہرائیں جن کی میں نے سند نہیں اتاری۔‘‘[2] رب تعالیٰ نے بندوں کو ملت ابراہیم اور حنیفیت پر پیدا فرمایا ہے، اس کی اصل ایک اکیلے اللہ کی محبت ہے، اگر کوئی فطرت بگڑ نہ گئی ہو تو اس میں اللہ کی محبت موجود ہی ہوتی ہے۔ لیکن بسا اوقات تکبر، یا کسی غرضِ فاسد کی وجہ سے فطرت میں
Flag Counter