Maktaba Wahhabi

302 - 702
یہ نسبت اپنے حقیر و صغیر ہونے کی بنا پر نہ ہونے کے جیسی ہے جیسے کہ رائی کو پہاڑ سے کؤی نسبت نہیں اور مٹی کو رب الارباب سے کوئی نسبت نہیں ۔ پس اگر تو حادث اور قدیم کے درمیان مناسبت نہ ہونے سے مراد یہ مونی ہے تو یہ معنی صحیح ہے۔ البتہ محبت اس نسبت کو مستلزم نہیں اور اگر مراد یہ ہے کہ قدیم میں ایسا کوئی معنی نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے محدَث اس سے محبت کرے تو مسئلہ کی جڑ یہی معنی ہے۔ پس پھر اے معترض! تم نے یہ کیوں کہا کہ حادث اور قدیم میں ایسی کوئی بات نہیں جس کی بنا پر حادث قدیم سے محبت کرے؟ اور تم نے یہ کیوں کہا کہ قدیم ایسی کسی صفت سے متصف نہیں جو حادث کی اس کے ساتھ محبت کا باعث بنے؟ محبت نقص کو مستلزم نہیں ۔ بلکہ یہ صفت کمال ہے۔ بلکہ یہ ارادہ کی اصل ہے۔ پس ہر ارادہ محبت کو مستلزم ہے کیونکہ کسی چیز کا محبوب ہونا یہ وسیلۂ محبوب کی وجہ سے ہی تو اس کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ اگر فرض کیا کہ محبت نہ ہو تو ارادہ ممتنع ہو۔ کیونکہ محبت ارادہ کو لازم ہے اور لازم کی نفی ملزوم کی نفی کو مستلزم ہوتی ہے۔ اسی طرح محبت ارادہ کو مستلزم ہے۔ پس جو کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو یہ محبت اس کے بعض متعلقات کے ارادہ کو متضمن ہوتی ہے۔ اسی لیے رب تعالیٰ کا اپنی مخلوقات کو پیدا کرنا حکمت پر مبنی ہے اور حکمت محبت و مراد ہوتی ہے۔ لہٰذا رب تعالیٰ نے جو پیدا کیا وہ کسی محبوب مراد کے لیے پیدا کیا۔ جیسا کہ بیان ہوا۔ رب تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے محبت کرتا ہے پس وہ ان کے ساتھ احسان کرنا چاہتا ہے اور بند اللہ سے محبت کرتے ہیں تو وہ اس کی عبادت و طاعت کرنا چاہتے ہیں ۔ صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسے اپنی اولاد اور والدین اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔ اب ہر مومن کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت ہوتی ہے جو کسی دوسرے سے نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اگر وہ اپنے کسی قرابت دار کو بھی سن لے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے رہا ہے تو اس پر اس قرابت دار سے عداوت کرنا اور اسے چھوڑ دینا بے حد آسان ہوتا ہے۔ بلکہ محبت رسول میں اسے قتل کر دینا بھی آسان ہوتا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو سمجھو کہ وہ مومن نہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیرَتَہُمْ اُوْلٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِّنْہُ﴾ (المجادلۃ: ۲۲) ’’تو ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نہیں پائے گا کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی، خواہ وہ ان کے باپ ہوں ، یا ان کے بیٹے ،یا ان کے بھائی، یا ان کا خاندان۔ یہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اس نے ایمان لکھ دیا ہے اور انھیں اپنی طرف سے ایک روح کے ساتھ قوت بخشی ہے۔‘‘
Flag Counter