Maktaba Wahhabi

291 - 702
آنکھوں سے حق تعالیٰ کو دیکھا ہے اور بہت سارے اپنے تئیں رب سے کی باتیں اور رب تعالیٰ کی ناراضی کو حکایت کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ سب باتیں ان کے دل میں مثال علمی ہیں جو ہر ایک کے ایمان کے بقدر ہوتی ہے۔ خواب میں رب تعالیٰ کی رؤیت بھی اسی مثالِ علمی میں سے ہے کہ رب تعالیٰ مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے اور وہ اسے اپنے ایمان کے بقدر دیکھتا ہے۔ لہٰذا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے ایمان والے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کو سب سے اچھی صورت میں دیکھا۔ یہ رؤیت منامی مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول و ماثور احادیث میں وارد ہے۔[1] رہی معراج کی رات تو اس بارے کسی معروف حدیث میں یہ مذکور نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات رب تعالیٰ کو دیکھا۔ البتہ اس بات پر علماء محدثین کا اتفاق ہے کہ اس بارے جو حدیث مروی ہے وہ موضوع ہے۔ جسے خلال نے ابو عبید کے طریق سے روایت کیا ہے اور قاضی ابو یعلی نے ’’ابطال التاویل‘‘ میں یہ حدیث ذکر کی ہے۔ رہی وہ حدیث جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق ہے تو امام اور ان کے اصحاب اس بارے کبھی تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی اتباع میں یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا۔‘‘ کیونکہ امام احمد اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا۔ صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ ’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (وہ تو) نور (ہے) بھلا میں اسے کیونکر دیکھ سکتا ہوں ۔‘‘ یہ سوال حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کسی سے منقول نہیں ۔ رہا عامۃ الناس کا یہ نقل کرنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! میں نے اپنے رب کو دیکھا۔‘‘ اور یہ کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ’’میں نے اپنے رب کو نہیں دیکھا‘‘ تو یہ جھوٹ ہے۔ اہل علم میں سے کسی نے بھی یہ روایت ذکر نہیں کی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سوال کے جواب میں مطلق نفی اور اثبات کے ساتھ جواب نہیں دے سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے منزہ اور بری ہیں ۔[2]
Flag Counter