Maktaba Wahhabi

256 - 702
ابوعثمان نیشاپوری کا قول ہے: ’’جس نے قول و فعل میں سنت کو نفس پر حاکم بنایا اس نے حکمت کو اپنایا اور جس نے قول و فعل میں ہوا کہ نفس پر حاکم بنایا اس نے بدعت کا ارتکاب کیا کیونکہ رب تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں : ﴿وَاِِنْ تُطِیعُوْہُ تَہْتَدُوْا﴾ (النور: ۵۴) ’’اور اگر اس کا حکم مانو گے تو ہدایت پاجاؤ گے۔‘‘ بعض صوفیا کا قول ہے کہ کوئی سنت میں سے کچھ صرف نفس کے کبر کی وجہ سے چھوڑتا ہے۔ جیسا کہ بعض کا قول ہے کہ جو بھی متبع رسول نہیں اس کا ہر فعل نفس کے ارادہ سے ہے اور وہ اللہ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کا پیرو ہے اور یہی عیش نفس ہے جو کبر ہے اور یہ ان لوگوں کے اس قول کا ایک حصہ ہے۔ ارشاد ہے: ﴿لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ﴾ (الانعام: ۱۲۴) ’’ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا۔‘‘ ان میں سے اکثر کا یہ گمان ہے کہ وہ اتباع رسول کے بغیر اپنی عبادت و ریاضت اور صفائے نفس سے پیغمبروں کے درجہ تک پہنچ جائیں گے۔ ان میں سے بعض فرقے تو خود کو پیغمبروں تک سے افضل گردانتے ہیں اور ان کے نزدیک ولی کا جو تصور ہے، وہ ولی پیغمبر سے بھی افضل ہے اور بعض کا یہ تک قول ہے کہ پیغمبر علم الٰہی کو خاتم الاولیاء کے چراغ سے حاصل کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ اپنے تئیں خاتم الاولیاء سمجھے بیٹھا ہوتا ہے اور یہ علم درحقیقت فرعون کا یہ قول ہے: ’’یہ وجود اورمشہود واجب بنفسہٖ ہے اس کا بنانے والا کوئی نہیں ، لیکن یہ صرف اتناضرور کہتا ہے ک ان موجودات اور مشہودات کا بنانے والا اللہ ہے۔ جبکہ فرعون نے اس بات کا بالکلیہ انکار کر دیا تھا۔ لیکن باطن میں فرعون ان نام نہاد صوفیا سے بھی زیادہ عارف تھا اور یہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مخلوق کا وجود خالق کا وجود ہی ہے۔ جیسا کہ ابن عربی اور اس کے ہم نوا اتحادیہ کا قول ہے۔ غرض مقصود ان لوگوں کو ذکر کرنا ہے جو مشروع عبادت کو چھوڑ کر اس عبادت کی طرف چل دئیے جو ان کے ارادہ، ذوق، وجد، محبت اور ہواء کے ساتھ تھی۔ یوں یہ نصاریٰ جیسی متعدد گمراہیوں میں جا پڑے۔ چنانچہ کوئی تو اس بات کا مدعی بن بیٹھا کہ نبیوں کی کوئی ضرورت نہیں ، ان کے طریقہ کے بغیر بھی اللہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ نبوت سے بھی افضل کسی بات کا مدعی ہے اور کسی نے یہ دعویٰ داغ دیا کہ اسے یا اس کے شیخ یا اس کی واصل جماعت کو بزعم خویش توحید کی حقیقت کے ساتھ اتحاد اور حلولِ خاص حاصل ہے۔ بلاشبہ یہی نصاریٰ کا قول ہے، جو غالی تھے، اسی طرح یہ عبادت گزار غالی بھی ہیں ، اسی طرح روافض میں بھی غلو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں فرقوں کے اکثر لوگ اپنے لیے یا اپنے مشائخ کے لیے الوہیت کے مدعی ہیں ۔ جیسا کہ اکثر اسماعیلیہ اپنے بنی عبیدہ کے ائمہ کے لیے الہٰیت کے مدعی ہیں ۔ ان کے غالی بارہ اماموں کے لیے یا دوسرے اہل بیت وغیرہ کے لیے الہٰیت کے مدعی ہیں جیسے نصیریہ وغیرہ۔ ایسا ہی کچھ حال کتاب و سنت سے خارج عبادت و ریاضت اور صوفیت والے بدعتیوں کا ہے۔ ان کا ایک غالی فرقہ الہٰیت کا اور نبوت سے فویق کا مدعی ہے اور اگر وہ کوئی فلسفی ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی کے وجود کو ممکن مانتا
Flag Counter