Maktaba Wahhabi

225 - 702
٭ یا یہ امر محض رب تعالیٰ کی حکمت و مشیت کے سپرد ہے کہ وہ اپنی حکمت و اسباب کے تحت جو چاہتا ہے کرتا ہے؟ ٭ یا یہ بات ہے کہ رب تعالیٰ دو ایک جیسوں میں محض اپنی مشیت سے فرق کرتا ہے، چنانچہ ایک تو معاف فرما دیتا ہے اور دوسرے کو نذر آتش کر دیتا ہے۔ حالانکہ وہ ہر اعتبار سے پہلے کے مشابہ و متماثل ہوتا ہے۔ غرض اس بارے ان حضرات کے دو اقوال ہیں جبکہ نصوص اور اسلاف کے اقوال پہلے قول کے موافق ہیں ۔ ہم شخص معین کے بہشتی یا دوزخی ہونے میں توقف ضرور کرتے ہیں لہٰذا ہم کسی قطعی اور جزمی علم کے ساتھ اس کے جنتی یا جہنمی ہونے کی شہادت نہیں دیتے۔ کیونکہ ہم اس کے باطن کی حقیقت کا اور جس ایمان و عقیدہ پر وہ مرا ہے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ البتہ ہم نیکوکار کے جنتی ہونے کی امید کرتے ہیں اور برائیوں کے مرتکب پر ڈرتے ہیں ۔ پھر ان کے شہادت بالجنۃ کی بابت تین اقوال ہیں : ۱۔ کوئی پیغمبروں کے سوا کسی کے حق میں بھی جنت کی شہادت کا قائل نہیں ۔ یہ محمد بن حنفیہ اور اوزاعی کا قول ہے۔ ۲۔ کوئی ہر اس مومن کے حق میں جنت کی شہادت دیتا ہے جس کے بارے میں نص آ گئی ہے۔ یہ اکثر اہل حدیث کا قول ہے۔ ۳۔ جبکہ تیسرے لوگ وہ ہیں جو ان مذکورہ بالا دونوں طبقوں کے لیے بھی جنت کی شہادت دیتے ہیں ور ان کے حق میں بھی جنتی ہونے کی شہادت دیتے ہیں جن کی ایمان والے شہادت دیتے ہیں ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔‘‘ ارشاد نبوی ہے: ’’عنقریب تم جنتیوں کو جہنمیوں سے پہچان لو گے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کس بات کے ذریعے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اچھی اور بری تعریف کے ذریعے۔‘‘[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی کہ کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کو اس ذریعہ سے جانا جا سکتا ہے۔ ابوثور کہا کرتے تھے: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ امام احمد جنت میں ہیں ‘‘ اور دلیل میں یہ حدیث پیش کیا کرتے تھے۔ غرض یہ موقع اس مسئلہ کی تفصیل کا نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ایمان میں تفاضل پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ایک کا ایمان دوسرے کے ایمان سے زیادہ کامل ہو سکتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’سب سے کامل مؤمن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں ۔‘‘[2]
Flag Counter