Maktaba Wahhabi

213 - 702
ہے یوں وہ ان جماعتوں کے باطل سے بچ جاتا ہے۔ پھر جس کے سامنے رب تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کو عیاں کر دیتا ہے۔ پھر یا تو وہ ان دونوں جماعتوں کے اقوال کے بالمقابل تیسرا قول کرتا ہے، یا پھر کسی کا ایک تو کسی کا دوسرا قول کرتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ یہی وہ قول ہے جس پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ تھے اور جس پر کتاب و سنت کی دلالت ہے۔ تو بلاشبہ رب تعالیٰ نے اس پر اپنا انعام پورا فرما دیا۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے ایسے شخص کو صراطِ مستقیم کی ہدایت دے دی ہے اور اسے اہل زیغ و ضلال کی راہ سے دور رکھا ہے۔ اگر کسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات عیاں نہیں ہوتیں ، تب بھی اس کا ان فرقوں کی گمراہی میں ان کی موافقت سے رکنا، یہ اس کے حق میں نعمت ہے اور اس نے کتاب و سنت کے اجمالی علم کی پناہ پکڑ لی ہے اور وہ اس مسئلہ میں کلام سے رک گیا ہے۔ آدمی جن باتوں کو نہیں جانتا، ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ آدمی لوگوں کی کہی ہر بات کی بابت حق بات کو نہیں جانتا ہوتا۔ تو لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ مسائل احکام میں تفسیر اور شرحِ حدیث میں متعدد اقوال کر رہے ہوتے ہیں بلکہ وہ طب اور عربیت وغیرہ میں بھی مختلف اقوال کے مالک ہوتے ہیں ۔ پھر بے شمار لوگ اختلاف کو تو ذکر کرتے ہیں مگر وہ حق بات کو نہیں جانتے ہوتے۔ پھر اہل فلسفہ میں اس قدر اختلاف اور تفرقہ ہے کہ حد و شمار میں نہیں آتا۔ کیونکہ متاخرین جیسے ابن سینا اور فارابی اور ان کے طرز پر چلنے والوں کے پاس جو فلسفہ ہے وہ ارسطو اور اس کے پیروکاروں کا فلسفہ ہے اور یہ ارسطو ہی تو ہے جو منطق، طبیعیات اور ما بعد الطبیعیات کے علوم کا بانی ہے اور اسی فلسفہ کو لے کر غزالی، شہرستانی اور رازی وغیرہ چلے تھے جو فلاسفہ کے ہی مقالات تھے اور وہی ابن سینا کا کلام ہے۔ پھر فلاسفہ کی ان کے علاوہ بھی بے شمار قسمیں ہیں ۔ اسی لیے قاضی ابوبکر نے ’’دقائق الکلام‘‘ میں اور ان سے پہلے ابو الحسن اشعری نے ’’مقالات غیر الاسلامیین‘‘ میں ، جو ایک بڑی کتاب ہے اور ’’مقالات الاسلامیین‘‘ سے بھی بڑی کتاب ہے، فلاسفہ کے متعدد اقوال ذکر کیے ہیں جن کو ابن سینا کے خوشہ چین ذکر تک نہیں کرتے۔ اسی طرح اشعری کے علاوہ جیسے ابو عیسی وراق، نوبختی، ابو علی، ابو ہاشم اور بے شمار متکلمین و فلاسفہ ہیں ۔ غرض متکلمین کی کتابوں میں ایک دوسرے کا ردّ ہے اور جسے باطل مقالہ کے ردّ کی احتیاج نہیں اسے ان باتوں کے جاننے کی بھی احتیاج نہیں ۔ کیونکہ ایک تو یہ باتیں اس کے دل پر گزری ہی نہیں ، دوسرے وہاں کوئی ان باتوں کا مخاطب بھی نہیں اور کوئی اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا بھی نہیں جس میں یہ سب باتیں اور اختلافات مذکور ہیں ۔ پھر جسے دوسروں کے دلائل کے ردّ کا فہم نہیں ، وہ ان سے منتفع بھی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ بسا اوقات جسے شبہ اور اعتراض کا تو علم ہو جائے لیکن اس کے فاسد ہونے کو نہ جانتا ہو، وہ نقصان اٹھاتا ہے۔
Flag Counter