Maktaba Wahhabi

212 - 702
کیونکہ بہت سے لوگوں ہیں جنھوں نے کلام کی مذمت کو مجمل سنا ہے، یا انھوں نے کسی جماعت کی مذمت کو مجمل سنا ہے یا انھوں نے کسی جماعت کی مذمت کو مجمل سنا ہے جبکہ وہ فقہاء، محدثین اور صوفیاء وغیرہ سے اس کی تفصیل کو نہیں جانتا اور جو کلام کے علم میں اوسط درجے کا ہے وہ ان کی ان غایات سے لاعلم ہے جو ان کے تفرقہ و اختلاف کا سبب ہیں ۔ تم اسے ایک قول کی اور اس کے قائل کی مذمت کرتے بھی دیکھو گے جبکہ اسی کی دوسری عبارت کو قبول کرتے بھی دیکھو گے۔ وہ تفسیر، فقہ اور شروحِ حدیث کی کتابیں بھی پڑھتا ہے جن کی یہ مذمت کر رہا ہوتا ہے یا ان کتابوں میں یہ مذموم مقالات بھی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ انھی باتوں کو وہ ایک ایسے شخص سے قبول کر رہا ہوتا ہے جن کے ساتھ وہ حسن ظن رکھتا ہوتا ہے کیونکہ ان لوگوں نے ان باتوں کو ایک اور عبارت سے، یا کسی آیت یا حدیث کی تفسیر کے ضمن میں ذکر کر دیا ہوتا ہے۔ غرض ایسا بہت ہے۔ سلامت وہی ہے جسے اللہ سلامت رکھے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے لوگ چند ائمہ کی تعظیم کرتے ہیں ، اور چند اقوال کی مذمت کرتے ہیں اور ان اقوال کے قائلین پر لعنت کرتے ہیں یا ان کی تکفیر کر رہے ہوتے ہیں ۔ حالانکہ ان میں سے بعض اقوال کے قائل وہ ائمہ بھی ہوتے ہیں جن کی یہ تعظیم کر رہا ہوتا ہے اور اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ وہ ائمہ ان اقوال کے قائل ہیں تو وہ یہ لعنت بازی بند کر دیں ۔ جبکہ ان میں سے متعدد اقوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی ہوتے ہیں جن کو یہ جانتا نہیں ہوتا۔ پھر اگر متکلمین سے یہ اقوال قبول کرنے والا مقلد ہو تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے جس کی اس کے جی میں زیادہ قدر ہوتی ہے۔ پھر اگر اس کا یہ گمان ہو کہ ان متکلمین نے وہ باتیں بھی ثابت کی ہیں جن کو یہ ائمہ ثابت نہیں کر سکے تو یہ ان کی تقلید کرنے لگے۔ اگرچہ وہ یہ گمان بھی کرے کہ یہ ائمہ زیادہ جلیل القدر اور حق کو زیادہ جاننے والے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ اتباع کرنے والے ہیں ۔ اگر اسے اس قول کی بابت متکلمین کی حجت معلوم ہو جائے اور جن ائمہ کی یہ تعظیم کرتا ہے ان کی بابت اسے یہ بات پہنچے کہ ان کا قول اس کے خلاف ہے، یا ایک حدیث اس کے خلاف ہے تووہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ اگر کسی ایک جانب کو ترجیح بھی دیتا ہے تو ناگواری سے دیتا ہے اور خود اس کے پاس اس ترجیح کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ بس اس کے جی میں جس کے بارے میں یہ بات آ جائے کہ یہی قول صحیح ہے، اسی کو اپنا لیتا ہے اور اس پر پکا ہو جاتا ہے۔ چاہے بعض متکلمین اس قول کے خلاف بھی ہوں ۔ آدمی کا ان لوگوں کے اختلافات کو اور ان کے ایک دوسرے کو ردّ کرنے کو جاننا نافع ترین امور میں سے ہے چاہے وہ ایک دوسرے کے مقالہ کے فساد کے دلائل کو نہ بھی جانتے ہوں ۔ کیونکہ ان میں سے کوئی تو ایسا ضرور ہوتا ہے جس کے مقالہ کو چند ایک جماعتوں نے فضیلت دی ہوتی ہے۔ پس جب وہ ایک دوسری جماعت کو دیکھتا ہے کہ وہ اس مقالہ کا ردّ کر رہی ہے تو وہ اس مقالہ کے فساد کو جان لیتا ہے اور یہ امر اس مقالہ میں موجود منکر اور باطل کے حق میں نہیں بن کر ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح جب وہ ان فرقوں کو ایک دوسرے کا ردّ کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو دونوں کے باطل عقائد کو بھی جان لیتا
Flag Counter