Maktaba Wahhabi

209 - 702
اس تاویل پر دلالت کرتے ہیں ۔ وہ تاویل حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی معروف تاویل و تفسیر اور خود دوسری نصوص کے بھی خلاف ہوتی ہے۔ اگر اس بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں ، اس سب کو ذکر کروں تو بے شمار لوگوں کے نام گنوا دوں اور اس میں کسی مشہور معتزلی اور رافضی کو مستثنیٰ نہ کروں اور نہ سنت کی طرف منسوب کی کرامی، اشعری اور سالمی کو ہی معاف رکھو۔ یہی حال مذاہب اربعہ کے ان علماء کا بھی ہے جنھوں نے ان متکلمین و فلاسفہ کے طریق پر لکھا ہے۔ یہ سب میں نے ان کی کتابوں میں خود دیکھا ہے۔ مسائل صفات، قرآن، مسائل تقدیر، اسما و احکام اور ایمان و اسلام کے مسائل اور وعدہ و وعید وغیرہ کے مسائل کی تحقیق میں یہ طرز و اسلوب موجود ہے جو دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم نے اپنی اس کتاب کے علاوہ دیگر کتب میں متعدد مقامات پر اس پر مفصل کلام کیا ہے جیسے ’’درء تعارض العقل و النقل‘‘ وغیرہ۔ اس بارے جامع ترین کتاب جس میں اصولِ دین میں اختلاف کرنے والوں کے مقالات مذکور ہیں ، وہ ابو الحسن اشعری کی کتاب ہے جس میں ان لوگوں کے وہ مقالات اور ان کی وہ تفصیلات مذکور ہیں جو کسی دوسری کتاب میں نہیں ملتی۔ موصوف نے اس کتاب میں اہل حدیث و سنت کے مذہب و کلام سے جو سمجھا ہے وہ رقم کیا ہے۔ اگرچہ موصوف خود ان لوگوں کے زیادہ قریب نہیں لیکن اس کے باوجود اصولِ دین کے مسائل جیسے قرآن، رؤیت باری تعالی، صفات اور تقدیر وغیرہ کے بارے میں جو کچھ کتاب و سنت میں آتا ہے اور اس بارے جو کچھ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے اقوال ہیں وہ اس کتاب میں نہیں ملتے۔ حالانکہ موصوف نے متکلمین کا جتنا کلام بھی وہ جانتے تھے اس سب کا استقصاء کر ڈالا ہے۔ یاد رہے کہ کتاب و سنت میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر آئے ہیں اور حضرات صحابہ و تابعین کے اقوال و آثار کہ ان سب کی معرفت ایک جدا علم ہے جس کو ان متکلمین اور اصولِ دین میں اختلاف کرنے والوں میں سے کوئی نہیں جانتا۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے ائمہ و اسلاف اہل کلام کی مذمت پر متفق تھے کہ ان لوگوں کا کلام باطل کی تصدیق، حق کی تکذیب اور کتاب و سنت کی تکذیب پر مشتمل ہے۔ ان کے کلام کے مبنی بر کذب و افتراء اور خطا ضلال ہونے کی وجہ سے اہل حق نے ان کی مذمت کی۔ ان اسلاف نے کسی کے حق کلام کی کبھی مذمت نہیں کی۔ کیونکہ حق بات ہوتی ہی وہ ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہوں ۔ بھلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی تعلیمات کو جاننے والے اسلاف ایسے کلام کی مذمت کیونکر کر سکتے ہیں ۔ غرض متکلمین کے کلام میں ایک دوسرے کی نقیض اور خود اپنے اقوال کا فساد پایا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں باطل ضرور ہوتا ہے۔ پھر ہر فرقہ دوسرے فرقہ کے اقوال کو باطل قرار دینے کا قصد کرتا ہے اور ایک سادہ لوح قاری ان کے اقوال سے اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پاتا کہ دلائل کا ایک انبار ہے جس میں کتاب اللہ سے اختلاف کرنے والے فرقوں کے اقوال کا ردّ ہے ....
Flag Counter