Maktaba Wahhabi

208 - 702
بے شک حق ایک ہی ہے جو رسولوں کی لائی شریعت سے باہر نہیں نکلتا اور وہ اس صریح عقل و فطرت کے بھی عین موافق ہے جس پر رب تعالیٰ نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ لیکن یہ متکلمین و فلاسفہ اس حق سے ناآشنا ہیں بلکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اس دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود گروہوں میں بٹ گئے۔ ان لوگوں نے کتاب میں بھی اختلاف کیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْ الْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍo﴾ (البقرۃ: ۱۷۶) ’’اور جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا ہے یقیناً وہ بہت دور کی مخالفت میں (پڑے) ہیں ۔‘‘ امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی قید کے دوران زنادقہ اور جہمیہ کے ان اقوال کا ردّ لکھا جن میں وہ متشابہات القرآن میں شک کرتے ہیں اور ان کی بے جا تاویل کرتے ہیں ۔ چنانچہ امام موصوف نے اپنی اس کتاب کے خطبہ میں لکھا ہے: سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے رسولوں کے درمیانی زمانوں میں ان اہل علم کو باقی رکھا جنھوں نے بھٹکے ہوؤں کو ہدایت کی طرف بلایا، پھر ان کی ایذا رسانیوں پر صبر بھی کیا، وہ اللہ کی کتاب سے مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور اللہ کے نور سے بے راہوں اور اندھوں کو روشنی دکھاتے ہیں ۔ چنانچہ ان خدا رسیدہ علماء نے کتنے ہی ابلیس کے ماروں کو حیاتِ نو بخشی اور کتنے ہی حیراں و سرگرداں گم گشتہ لوگوں کو راہ سجھائی، سو ان علماء نے لوگوں کا کتنا بھلا کیا اور لوگوں نے ان کے ساتھ کیا ہی برا کیا۔ یہ علماء کتاب اللہ سے غلو کرنے والوں کی تحریف اہل باطل کے غلط دعووں اور ان جاہلوں کی تاویلات کو دور کرتے ہیں جو بدعتوں کے علم بردار اور فتنوں کو بے لگام چھوڑ دینے والے ہیں ۔ یہ کتاب اللہ سے اختلاف بھی رکھتے ہیں اور اس کے مخالف بھی ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ کتاب اللہ کو چھوڑ دینے پر متفق بھی ہیں ۔ یہ لوگ بغیر علم کے اللہ پر جھوٹ بھی بولتے ہیں اور اللہ اور اس کی کتاب کے بارے کلام بھی کرتے ہیں ۔‘‘ متشابہ کلام کے ساتھ گفتگو ان کا وتیرہ ہے، اور نادان لوگوں کو اپنی تلبیسات میں پھنسا کر انھیں دھوکا دیتے ہیں ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل بجا لکھا ہے۔ کتب کلام میں کتاب اللہ سے اختلاف کرنے والے جن لوگوں کے مقالات مذکور ہیں ، یا تو وہ محض نقل ہیں ، یا پھر نقل، بحث اور جدال کا ذکر ہے۔ یہ سب اختلاف کرنے والے ایک بات کی موافقت تو دوسری کا ردّ کرتے ہیں پھر جو بات ان کی رائے کے موافق ہو اسے اس محکم کا درجہ دے دیتے ہیں جس کی اتباع واجب ہوتی ہے اور جو بات ان کی رائے کے مخالف ہو وہ ان کے نزدیک اس متشابہ کے حکم میں جس کی تاویل یا تفویض واجب ہو۔ علم کلام پر جس نے بھی لکھا اور ان میں ان نصوص کو ذکر کیا جو ان کا مستدل اور مخالف پر حجت کے دلائل ہیں آپ ان کتابوں میں ان متکلمین و فلاسفہ کا یہ طرز دیکھ سکتے ہیں ، آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنی رائے کے مخالف نصوص کی ایسی تاویلات کریں گے کہ اگر وہ تاویلیں کوئی اور کرے تو یہ اس پر قیامت ڈھا دیں ۔ یہ لوگ آیات قرآنیہ کی وہ تاویل کرتے ہیں جن کی بابت یہ یقیناً معلوم ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تاویل مراد نہ لی تھی اور نہ آیاتِ قرآنیہ کے الفاظ ہی
Flag Counter