Maktaba Wahhabi

206 - 702
ان باتوں کو ایک کتاب میں رقم کروں جن کی بابت اہل عقل و فہم کو بھی اشکالات اور مشکلات پیش آتی ہیں ۔ لیکن شاید انھوں نے سوج کو فربہی سمجھا اور بجھے انگاروں میں پھونک ماری۔ میری عمر کی قسم! میں سب تعلیم گاہوں میں گھوم گیا اور ان سب آثار پر نگاہ دوڑائی تو میں نے اس کے سوا اور نہ دیکھا کہ کوئی تو مارے حیرت کے انگشت بدنداں ہے اور کوئی ندامت سے دانت پیس رہا ہے۔ غرض موصوف شہرستانی بتلا رہے ہیں کہ انھیں متکلمی و فلاسفہ میں سے سوائے حیراں و سرگرداں کے اور شک و ارتیاب میں غلطاں کے یا اپنے خود ساختہ عقائد کی خطا ظاہر ہونے پر کف افسوس ملنے والے ندامت کے ماروں کے اور کوئی نہیں ملا۔ اب ان میں سے پہلی قسم کے متکلمین جہل بسیط کا شکار ہیں جو تہہ بہ تہہ اندھیروں کے جیسا ہے۔ کہ اس میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اور دوسری قسم کے متکلمین جہل مرکب میں ڈوبے ہیں ۔ پھر موصوف پر اپنا جہل عیاں ہوا تو بے حد نادم ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم موصوف شہرستانی کو دیکھتے ہیں کہ وہ مسائل کے تحت مختلف فرقوں کے اقوال و دلائل تو ذکر کرتے ہیں لیکن مارے حیرت کے کسی ایک قول کو ترجیح نہیں دے پاتے۔ یہی حال علامہ آمدی کا بھی ہے کہ ان پر توقف اور حیرت ہی غالب رہتی ہے۔ اب امام رازی کو ہی لے لیجیے کہ وہ ایک کتاب میں ، بلکہ ایک ہی کتاب کی ایک جگہ میں ایک قول کی تائید کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اسی کتاب کے دوسرے مقام پر یا پھر کسی اور کتاب میں اسی قول کی نقیض ذکر کر دیتے ہیں ۔ یہ بات بالآخر انھیں شک اور حیرت کے دروازے پر لے گئے۔ اسی لیے جب یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ کامل ترین علم رب تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات و افعال سے متعلق علم ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ذکر کر دیا جاتا ہے کہ ان سب باتوں پر چند اشکال بھی ہیں (کہ یہ اکثر متکلمین کا حال ہے) میں نے متعدد مقامات پر امام رازی کے کلام کو اور انھیں اور دیگر متکلمین پر وارد ہونے والے اشکالات کو مفصل اور واضح ذکر کیا ہے۔ بے شک رب تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو حق دے کر بھیجا ہے اور اپنے بندوں کو فطرت پر پیدا کیا ہے۔ پس جس نے اپنی فطرت کو اس دین کے ساتھ مکمل کر لیا جسے دے کر رب تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھیجا ہے تو اس نے ہدایت اور وہ یقین پا لیا جس میں کوئی شک بھی نہیں اور نہ کوئی تناقض ہی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے اپنی عقلی فطرت اور سمعی شریعت دونوں کو برباد کر لیا جس کا سبب وہ شبہات اور اختلافات تھے جن میں وہ پڑ گئے تھے، جن کی نحوست سے یہ لوگ حق تک پہنچنے سے قاصر رہے۔ جیسا کہ میں نے ایک دوسرے مقام پر اس کی تفصیل ذکر کر دی ہے۔یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جب امام رازی نے یہ ذکر کیا تو یہ کہا: ’’اور جو اس دروازے تک پہنچا اور جس نے یہ شراب پی لی۔‘‘[1]
Flag Counter