Maktaba Wahhabi

205 - 702
﴿ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْ﴾ (الحج: ۱۹) ’’یہ دو جھگڑنے والے ہیں ، جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا۔‘‘ صحیحین میں ثابت ہے کہ یہ آیت بدر کے دن لڑنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد تھے۔ جبکہ اس دن مشرکین میں سے لڑنے والے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے جنھوں نے اہل ایمان سے مبارزت کی تھی۔[1] میں نے کتب اختلاف میں ، جن میں لوگوں کے مقالات درج ہیں ، خوب غور و تدبر کیا ہے۔ یا تو وہ محض نقل ہیں جیسے ابو الحسن الاشعری کی ’’کتاب المقالات‘‘ اور شہرستانی اور ابو عسی الوراق کی ’’الملل و النحل‘‘ یا پھر ان میں بعض اقوال کی تائید ہے۔ اہل کلام کی، حسب اختلافِ طبقات، اکثر کتب و تصانیف کا حال یہی ہے۔ میں نے ان میں زیادہ تر جس اختلاف کو مذکور دیکھا ہے، وہ مذموم اختلاف ہی ہے۔ رہا وہ حق جسے دے کر رب تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور امت کے اکثر اسلاف بھی اسی پر ہیں ۔ اس حق کے جمیع مسائل میں ایسا اختلاف دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بلکہ یہ اہل کلام ایک ایک مسئلہ کے تحت متعدد اقوال نقل کرتے ہیں اور کتاب و سنت کا ایک قول بھی نقل نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے ان کو ذکر نہ کرتے تھے بلکہ بات یہ ہے کہ وہ لوگ حق جانتے ہی نہ تھے اسی لیے ائمہ اسلاف اس علم کلام کی مذمت بیان کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کلام میں سے جو لوگ منصف مزاج اور حاذق اور سمجھ دار تھے انھیں اخیر عمر میں جا کر علم کلام سے شک اور حیرت کے سوا اور کچھ نہ ملا، جس کا انھوں نے صاف صاف اقرار بھی کیا۔ کیونکہ انھیں ان اختلافات میں حق نہ ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثر عوام کے اسی دین کی طرف لوٹ آئے جس پر پرانے بوڑھے اور بدوی لوگ تھے۔ چنانچہ ابو المعالی نے عالم نزع میں یہ کہا: میں ایک گہرے سمندر میں اترا اور میں نے اہل اسلام اور ان کے علوم کو ترک کر دیا اور ان باتوں میں جا گھسا جس سے انھوں نے روکا تھا۔ اب اگر میرے رب کی رحمت نے مجھے نہ ڈھانپا تو ابن جوینی کے لیے ہلاکت ہے۔ گواہ رہو کہ میں اپنی ماں کے عقیدہ پر مر رہا ہوں ۔ابوحامد غزالی کا معاملہ بھی اخیر عمر میں شک اور حیرت پر ہی جا کر ٹھہر گیا تھا اور انھیں یہ کیفیت متکلمین و فلاسفہ کے طرق میں خوب غور و تدبر کے بعد حاصل ہوئی تھی۔ چنانچہ موصوف عبادت و ریاضت اور زہد کے طرق پر چل پڑے اور اخیر عمر میں صرف ’’صحیحین‘‘ میں مشغول ہو کر رہ گئے۔ یہی حالت امام شہرستانی کی بھی ہوئی تھی۔ حالانکہ وہ ان متکلمین کے مقالات و اختلاف کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے اور انھوں نے اپنی وہ شہرۂ آفاق کتاب ’’نہایۃ الأقدام فی علم الکلام‘‘ بھی لکھی اور اس میں یہ لکھا: مجھے اس ذات نے مشورہ دیا جس کا مشورہ غنیمت اور جس کا حکم بجا لانا حتمی ہے کہ میں ان کے لیے مشکلات الاصول میں سے
Flag Counter