Maktaba Wahhabi

154 - 702
اس کی نماز ایسے مکمل نماز نہیں تھی جس کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ﴾[النساء ۱۰۳] ’’جب تمہیں اطمینان حاصل ہو تو نماز قائم کرو۔‘‘ اسی لیے جب اس فرمان میں حج پورا کرنے کا حکم دیا:﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾ [البقرہ ۱۹۶] ’’ اور حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے پورا پورا ادا کرو۔‘‘ تو شارع علیہ السلام پر اس کے تمام واجبات ادا کرنا لازم کردیا۔اگر کوئی واجب ترک کردیا گیا تو ’’دم جبران‘‘ سے اس کا ازالہ کرنا واجب ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اس نے مامور بہ فعل کو پورے واجبات کے ساتھ ٹھیک سے ادا نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس پر اعادہ یا دم جبران سے ازالہ ممکن نہ ہوتا۔ ایسے جب آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھ رہا ہے؛ تو آپ نے اسے نماز دہرانے کا حکم دیا۔ اور فرمایا:’’ صف کے پیچھے اکیلے انسان کی نماز نہیں ہوتی۔ ‘‘[1] اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام اسحق بن راہویہ رحمہما اللہ کے علاوہ دیگر علمائے حدیث نے صحیح کہاہے۔ پس اگر یہ کہا جائے کہ: ’’نماز میں غلط کار کی وہ حدیث جسے اہل سنن نے حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے؛ جس آپ نے نماز میں صرف متروکہ امور پر اس کا مؤاخذہ کیا تھا؛ اور باقی اعمال کو شمار کیا تھا؛ تو یہ انسان اس کی طرح تو نہیں ہوسکتا جس نے نماز پڑھی ہی نہ ہو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ’’ہم بھی تو یہی بات کہتے ہیں ؛ جو کوئی نماز پڑھے؛ اور اس کے بعض واجبات کو ترک کردے: وہ اس انسان کی طرح تو نہیں ہوتا؛ جو بالکل ہی نہ پڑھے۔ بلکہ اس نے جو کیا اتنے پر اسے ثواب ملے گا۔ اور جو اس سے رہ گیا ہے؛ اس پرسزا ملے گی۔ اور بیشک اسے اعادہ کا حکم اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ ترک فعل کی وجہ سے لاحق ہونے والی عقوبت کا خاتمہ ہو جائے۔ کیونکہ واجب کو ترک کرنا اس عقوبت کا سبب ہے۔ جب اسے بعض واجبات کے ترک کرنے پر عقوبت کا سامنا ہوسکتا ہے تو پھر ان متروکہ واجبات کو بجا لانا لازم ٹھہرتا ہے۔ یا تو اس کا ازالہ کرے؛ یا پھر اس فعل کو اگر دوبارہ ادا کرنا ممکن ہے تو دوبارہ ادا کرے۔ بھلے کسی دوسرے کے ساتھ مل کرادا کرے؛ اگر ممکن نہ ہو تو اکیلے ہی ادا کردے۔
Flag Counter