Maktaba Wahhabi

153 - 702
گا۔ یہ امام مالک؛ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔ لیکن امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں : ’’ کبھی کوئی ایسی چیز واجب ہوتی ہے جو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتی ہے۔ اور یہ سجدہ سہو اس کا عوض بن جاتا ہے۔ ان حضرات کے نزدیک سجدہ سہو واجب ہے۔جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جو بھی چیز واجب ہے ؛ اس کے ترک کرنے پر نماز باطل ہو جاتی ہے؛ خواہ وہ عمداً ترک کرے یا سہواً۔ ان کے نزدیک سجدہ سہو واجب نہیں ۔ اور جس چیز کے بدلہ میں سجدہ سہو کرنے سے نماز صحیح ہوجاتی ہے؛ وہ نہ ہی واجب ہوتی ہے اور نہ ہی نماز کو باطل کرنے والی۔ جب کہ اکثر علماء سجدہ سہو کو واجب کہتے ہیں ؛ جیسے امام مالک؛ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہم اللہ ۔ ان حضرات کاکہنا ہے: ’’ امر وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ اور کہتے ہیں : اگر نماز میں جان بوجھ کر کوئی چیز زیادہ کی جائے تو بالاتفاق وہ نماز باطل ہو جاتی ہے۔ مثلاً کوئی انسان عمداً پانچویں رکعت زیادہ پڑھ لے۔یانماز مکمل کرنے سے قبل عمداً سلام پھیر دے۔ ہاں اگر کوئی انسان بھول کر ایسا کر بیٹھے تو وہ سجدہ سہوکرے گا؛ یہ بات سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ پس ان سجدوں کی وجہ سے نماز کی بھول کی اصلاح ہوجائے گی عمد کی نہیں ۔ ایسے ہی جوکچھ نماز میں کمی رہ گئی ہو۔ کیونکہ سجدہ سہو کبھی نماز میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی زیادتی کی وجہ سے۔ جیسے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشہد اول بھول گئے تھے؛ تو آپ نے سجدہ سہو کیا تھا۔ لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر ایسا کرے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ یہ امام مالک او رامام احمد رحمہما اللہ کاقول ہے۔ جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سجدہ سہو اس میں بھی واجب جس کے عمداً یا سہواً ترک کرنے سے نماز باطل نہ ہوتی ہو۔ وہ فرماتے ہیں : اس عمل کے ترک کرنے پر یہ غلط اورگنہگار ہے۔ جیسے نماز میں اطمینان و سکون اور سورہ فاتحہ کی تلاوت ترک کردینا۔ اس مسئلہ میں اکثر علماء کا اختلاف ہے۔ان کا کہنا ہے: جو کوئی جان بوجھ کر واجب ترک کردے؛ تو جہاں تک ممکن ہو؛ اس پر اعادہ واجب ہے۔ کیونکہ اس نے وہ کام نہیں کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ ایسا کرنے پر قادر تھا؛ پس اس سے یہ واجب ساقط نہیں ہوسکتا۔ صحیحین میں نماز میں غلطی کرنے والے سے متعلق حدیث روایت کی گئی ہے؛ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا تھا؛ جاؤ اور نمازپڑھو؛ بیشک تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ اورپھر آپ نے اسے نماز میں اطمینان اختیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی واجب کو ترک کردے؛ تو اس کا فعل نماز نہیں کہلائے گا۔ بلکہ اسے دوبارہ نماز پڑھنے کاحکم دیا جائے گا۔ اور شارع صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے اس کے نام کی نفی اس وقت تک نہیں کرتے جب تک اس کے کچھ واجبات ترک نہ کردیے جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ’’ بیشک تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘اس لیے تھا کہ اس نے نماز کے کچھ واجب ترک کردیے تھے۔[1]
Flag Counter