Maktaba Wahhabi

362 - 370
حفاظت، جسمانی راحت اور قابل تعریف اوصاف کا حضول ممکن ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((اَوَّلُ عِوْضِ الْحَلِیْمِ عَنْ حِلْمِہٖ اَنَّ النَّاسَ اَنْصَارُہٗ))[1] ’’حلیم کا اپنے حلم کی وجہ سے سب سے پہلا ثمر یہ ہے کہ لوگ اس کے مددگار بنا دئیے جاتے ہیں ۔‘‘ حلم کی مختصر تعریف یہ ہے کہ جوش غضب میں نفس کو قابو کرنا حلم ہے اور اس کا بھی ایک محرک ہوتا ہے جس کی تفصیل مناسب مقام پر آئے گی۔ نفس کو صبر، غصہ پینے اور حلم پر بتدریج آمادہ کیا جاتا ہے کیونکہ حلم دو بداخلاقی عیوب کے درمیان ہوتا ہے۔ شدید غصہ اور کم عقلی۔ حلم وقار اور غصے کے وقت پرسکون رہنے یا مصیبت و صدمے سے دوچار ہوتے وقت انتقام لینے کی قدرت و قوت ہونے کیب اوجود، عقل اور درگزر کرنے کا نام ہے۔[2] حلیم کے نزدیک نادانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور کم عقل اسے خوف زدہ نہیں کر سکتے وہ غصے کے بھڑکنے کے وقت اپنے نفس پر مکمل قابو رکھتا ہے۔ وہ ابتدا غصہ پی کر کرتا ہے۔ پھر معاملات کے انجام پر غور کرتا ہے اور ہر چیز کو اس کی حقیقی جگہ پر رکھتا ہے۔ جو عقل سلیم کی دلیل ہے اور صاحب عقل کے کمال علم اور اس کے مضبوط ارادے کی علامت ہے جو اسے مدمقابل کے فعل کا صحیح ردّ کرنے کی بصیرت دیتا ہے حتیٰ کہ وہ آسان ترین اور مفید ترین راستہ اختیار کرتا ہے اور عفو و احسان کے ساتھ معاملات طے پا جاتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo﴾ (آل عمران: ۱۳۴) ’’اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی
Flag Counter