Maktaba Wahhabi

269 - 370
شَدِیْدٌo﴾ (ہود: ۱۰۲)[1] ’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے اور جب اسے پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ﴿ وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌo﴾ (ہود: ۱۰۲) ’’اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے، جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے، اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والی ہوتی ہیں ، بے شک اس کی پکڑ بڑی دردناک، بہت سخت ہے۔‘‘ ظلم کے خلاف عدل کی دو عملی مثالیں : ۱۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں عدل کیسا ہوتا تھا؟ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تاریخ اسلام‘‘ میں روایت کی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی غزوہ سے واپس آئے تو انہوں نے مال غنیمت کے بدلے چالیس ہزار درہم حاصل کر لیے۔ جب وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ شاید یہ امیر لشکر تھے تو انہوں نے دوسروں کی نسبت کم قیمت پر مال خرید لیا اور انہوں نے بھی کہ وہ امیر المومنین کا بیٹا ہے اور امیر المومنین کو اپنے بیٹے کی اس بات میں کوئی وزن محسوس نہ ہوا کہ دوسروں کی طرح انہوں نے بھی تجارت کی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’بے شک میں مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں جواب دہ ہوں اور میں تمہیں کسی بھی قریشی تاجر کے منافع سے زیادہ دوں گا ہر درہم کے ساتھ ایک درہم تمہارا منافع ہو گا۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تجار کو بلایا تو انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مال غنیمت کے چالیس ہزار درہموں سے خریدا ہوا مال چار لاکھ درہموں میں خرید لیا۔
Flag Counter