باغی، شریر اور فسادی لوگوں کو عبرت دلانے اور راہ راست پر لانے کے لیے ان پر حدود تعزیر قائم کرتے ہیں ۔ یہ رحمت رشد و ہدایت سے لبریز ہے۔ چنانچہ مناسب مقامات پر شدت، عقوبت اور بظاہر اذیت رشد و ہدایت پر مبنی صحیح رحم دلی میں کوئی اختلاف و تعارض نہیں ۔
شرم و حیا اور عفت و عصمت
حیا اور عفت حسن خلق کے دو اوصاف ہیں اور اہل ایمان پر واجب ہے کہ ان دونوں اوصاف کے حصول کے لیے وہ تمنا کریں :
اوّل: شرم و حیا:
باطنی صفت ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ اچھا عمل کرنے اور قبیح عمل ترک کرنے کے دوران ظاہر ہوتی ہے۔ شرم و حیا لازم و ملزوم ہیں اور جب آدمی میں صفت حیا کمال درجہ پر ہو تو وہ شرماتا ہے۔ کیونکہ اسے عیوب کے مقامات سے سخت متنفر ہوتا ہے۔[1]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَ سَبْعُوْنَ اَوْ بِضْعٌ وَ سِتُّوْنَ شُعْبَۃً، فَاَفْضَلُہَا قَوْلُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، وَ اَدْنَاہَا اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَ الْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ))[2]
’’ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ، سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم درجہ راستے سے رکاوٹ دور کرنے کا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
سیدنا بوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْحَیَائُ خَیْرٌ کُلُّہٗ اَوْ قَالَ اَلْحَیَائُ کُلُّہٗ خَیْرٌ)) [3]
|