Maktaba Wahhabi

264 - 370
سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اب اٹھیں ۔ بقول راوی دونوں نے نماز پڑھی۔ تب سلمان رضی اللہ عنہ نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے کہا: بے شک آپ کے اوپر آپ کے رب کا حق ہے اور آپ کے اوپر آپ کے نفس کا حق ہے اور آپ کے اوپر آپ کے گھر والوں کا حق ہے۔ آپ ہر مستحق کو اس کا حق دیں ۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بتایا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سلمان نے سچ کہا۔‘‘ اور ابن سعد کی روایت میں ہے: ’’بے شک سلمان علم سے سیر ہو گیا۔‘‘ انسان کے دوسروں کے ساتھ عدل کرنے کی متعدد صورتیں ہیں : ۱۔ انسان بیوی کے ساتھ عدل کیسے کرے؟ وہ اسے خورد و نوش کا وافر سامان مہیا کرے۔ اسے لباس دے اور اس کی رہائش کا بندوبست کرے اور معروف طریقے سے حسن معاشرت کا سلوک کرے اور گزر بسر میں وہ کسی قسم کی اس کے ساتھ کمی کوتاہی نہ کرے۔ یا وہ اپنے آپ کو عبادت میں اتنا مشغول نہ کرے کہ بیوی سے بالکل غافل ہو جائے اور جب کسی انسان کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اسلام نے اس پر ان کے درمیان عدل کی شرط لگائی ہے کہ وہ زندگی کے جتنے معاملات میں عدل کر سکتا ہو ضرور کرے اور اگر وہ عدل نہ کر سکتا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ایک بیوی پر اکتفا کرنے کی نصیحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً﴾ (النساء: ۳) ’’پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے۔‘‘ اگر بیوی اللہ تعالیٰ کی معصیت کے علاوہ کسی جگہ خاوند کی نافرمانی کرے تو خاوند ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردہ مراحل پر عمل کرنے کا مکلف ہے کہ پہلے اسے وعظ و نصیحت کرے پھر اس کا بستر علیحدہ کر دے پھر آخر مرحلے پر اسے بدنی سزا دے بشرطیکہ وہ سزا ہڈی توڑ نہ ہو اور نہ گوشت پھاڑے اور نہ چہرے پر مارے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
Flag Counter