Maktaba Wahhabi

301 - 370
’’گزشتہ نبوتوں کے کلام سے لوگوں کو جو کچھ ملا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ اے ابن آدم! جب تجھ میں حیا نہ رہے تو تو جو چاہے کر لے۔‘‘ لیکن اس حدیث کے اسلوب سے کسی کو گناہوں کے ارتکاب کے لیے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ جب انسان میں حیا کم ہو جائے تو وہ جو چاہے کرے۔ کیونکہ اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ جو شخص بے حیا ہو جائے اسے بے حیائی ہر برا کام کرنے پر اکساتی ہے۔ اسے کسی چیز کا خوف نہیں ہوتا۔ اس لیے انسان کو باحیا ہونا چاہیے کیونکہ حیا اسے برے اعمال سے روکتی ہے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَشَدُّ حَیَائً مِنَ الْعَذْرَائِ فِیْ خِدْرِہْا، فَاِذَا رَاٰی شَیْئًا یَکْرَہُہٗ عَرَفْنَاہُ فِیْ وَجْہِہٖ))[1] ’’پردے میں بیٹھی ہوئی کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ شرمیلے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے وہ پہچان لیتے۔‘‘ حیا کے زیور سے آراستہ ہونے میں انفرادی و اجتماعی بھلائی ہے کیونکہ حیا ہی اچھے عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور قبیح عمل چھوڑنے پر آمادہ کرتا ہے۔ لیکن یہ وصف شرعی حیا کا ہے اور جو حیا حقوق کی ادائیگی میں مانع ہو اور منکرات و معاصی کے مرتکبین کا سامنا کرنے سے خوف دلائے تو ایسی حیا غیر شرعی ہے۔ بلکہ یہ عاجزی و درماندگی ہے اگرچہ لوگ اسے حیا ہی کہتے رہیں ۔ اس لیے بظاہر یہ حیا شرعی سے مشابہت رکھتی ہے۔[2] حیا کی متعدد انواع ہیں : ا : اللہ تعالیٰ سے حیا کرنا: اس کے اوامر کی اطاعت کرنا اور اس کی منہیات کو ترک کرنا۔ چونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے کہ وہ باحیا انسان کو معاصی کے ارتکاب سے روکتا ہے جس طرح ایمان بذات خود صاحب
Flag Counter