حلم و بردباری:
عقل، فہم، دماغ اور بصیرت کے مجموعے کا نام حلم ہے۔ نیز ٹھنڈے جذبات، آہستہ روی اور غور و فکر پر بھی حلم کا اطلاق ہوتا ہے۔[1]
اصطلاح میں حلم وقار اور پختہ عزم کو کہتے ہیں اور حلم اللہ تعالیٰ کے اسم حسن ’’الحلیم‘‘ سے مشتق ہے جو کہ اپنے مجرم بندوں سے انتقام لینے میں جلدی نہیں کرتا۔ تاکہ ان کو توبہ، ندامت اور استغفار کی مہلت مل جائے اور پھر ان پر حجت قائم کر دے کہ انہیں مہلت ملنے کے باوجود وہ اپنے دلوں اور اپنے اعمال کی اصلاح نہ کر سکے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنی صفت حلیم کے نتیجے میں انہیں اصلاح کرنے کی مہلت دے دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَلِیْمًاo﴾ (الاحزاب: ۵۱)
’’اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، بڑے حلم والا ہے۔‘‘
حلم کی صفت تدریجاً پیدا ہوتی ہے اور جلد بازی اور بے صبری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل انسان کو حلم سکھا دیتے ہیں ۔ حکیمانہ رائے ہے کہ ’’اَلْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ وَ الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ‘‘ ’’حلم تجربات سے آتا ہے اور علم سیکھنے سے آتا ہے۔
یہ حقیقت بلاشک و ریب ہے کہ اخلاق و کردار کی خوبیوں میں قوت ایمانی کا بہت بڑا کردار ہے۔ انہی میں سے ایک صفت حلم بھی ہے۔
وہ مومن جسے اللہ کے ہاں حلم کے فضائل کا علم ہو اور وہ اس ثواب عظیم کا علم رکھتا ہو جو اللہ تعالیٰ اصحاب حلم کے لیے تیار کر رکھا ہے تو وہ اپنے اندر صفت حلم سے متصف ہونے کا جوش اور ولولہ ضرور محسوس کرتا ہے۔
حلم و عقل کا ملاپ:
حلم اور عقل میں مضبوط رابطہ قائم ہے کیونکہ معتدل اور صحت مند عقل ہی انسان کو اس کے جوش و جذبات اور شہوات و خواہشات کو ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے اور ہر اس کج
|