کسی دانشور نے کہا: تو اگر سچ سے ڈرتا ہے لیکن وہی تجھے نجات دے گا اور جھوٹ تجھے ہلاکت میں ڈال دے گا تو اگرچہ اس سے بے خوف ہو اور قول ماثور ہے اگر جھوٹ سے نجات ملنے کا امکان ہو تو سچ بہت زیادہ نجات دینے والا وصف ہے۔
ب: بظاہر جھوٹ کا خوش نما ہونا:
جھوٹے شخص کی باتیں میٹھی اور اس کی گفتگو دل کو بھاتی ہے۔ اس کے برعکس سچے آدمی کی بات کڑوی ہوتی ہے اور اس کی گفتگو غیر دلچسپ ہوتی ہے۔ اس لیے بندہ جھوٹ بولتا ہے حالانکہ اس کی عجیب و غریب باتیں بہت انوکھی نہیں ہوتیں اور اس کی چلبلی گفتگو عاجز کر دینے والی نہیں ہوتی۔ اس مقام پر نفس کی رسوائی دون ہمتی ظاہر ہوتی ہے۔
ج: کسی انتقام لینے کی غرض سے:
دشمن سے انتقام لینے کی غرض سے اس کی طرف جھوٹ گھڑ کر منسوب کیا جاتا ہے اور اس کے متعلق ایسی باتیں کی جاتی ہیں جو اس میں نہیں ہوتیں ۔
د: عادتاً جھوٹ بولنا:
جھوٹ بولنے کے اسباب پے درپے اس کے سامنے یلغار کرتے آتے ہیں ۔ حتیٰ کہ وہ ان سے مانوس ہو جاتا ہے اور جھوٹ اس کی عادت بن جاتی ہے اور اس کا نفس جھوٹ کا مطیع بن جاتا ہے۔
بہرحال کبھی کبھی جھوٹ قابل مدح بھی ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((لَیْسَ الْکَذَّابُ الَّذِیْ یَصْلُحُ بَیْنَ النَّاسِ وَ یَقُوْلُ خَیْرًا وَ یَنْمِیْ خَیْرًا)) [1]
’’وہ جھوٹا نہیں ہوتا جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے اچھی بات کہتا ہے اور
|