Maktaba Wahhabi

304 - 370
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہُ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo﴾ (قٓ: ۱۶) ’’اور بلا شبہ یقینا ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتاہے اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔‘‘ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِo﴾ (الانفال: ۴۳) ’’بے شک وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ مذکورہ بالا اوصاف کے ذریعے جب انسان با حیا بنتا ہے تو خیر و سعادت کے تمام اسباب مکمل ہو جاتے ہیں ۔[1] مذکورہ بالا انواع حیا کے ساتھ اگر کچھ اور انواع حیا ملا لی جائیں تو حیا کا مفہوم مزید واضح اور سہل ہو جاتا ہے۔ جیسے حیا ایک زیور ہے جو انسان محنت کے ذریعے حاصل کر سکتا ہے یا حیا انسان کا طبعی غریزہ ہے جو وقار کے مشابہ ہے۔[2] دوم: عفت و آبرو: عفت سے مراد اللہ تعالیٰ کے محاکم سے اپنے آپ کوروکنا ہے اور ہر اس فعل سے رک جانا ضروری ہے جس کا کرنا انسان کے لیے اچھا نہ ہو۔ اسی باب سے حرام جگہ پر شہوت کی تکمیل سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور حرام مال نہ کھانا بھی عفت کہلاتا ہے اور ایسے اعمال سے پیچھے ہٹ جانا جو مجتمع میں انسان کے لائق نہ سمجھے جائیں ۔ یہ بھی پاک دامنی کا باعث ہے۔ نیز انسان کے لیے اسلامی عقیدے کی پابندی ضروری ہے اور عقیدے کے مطابق لوگ جن اعمال کو برا سمجھتے ہوں ان سے باز آ جانا بھی عفت و آبرو کی دلیل ہے جیسے ولیمے وغیرہ
Flag Counter