چنانچہ مروت جھوٹ سے روکتی ہے اور سچ پر آمادہ کرتی ہے نیز جو فعل کسی سے مجبوراً کروایا جا رہا ہو مروّت اس فعل سے روکتی ہے۔ تو جو فعل قبیح ہو اس سے تو وہ بالاولیٰ روکتی ہے۔
۴۔ نیک نامی کے حصول کی خواہش:
صدق کی وجہ سے نیک نامی کے حصول کی خواہش تاکہ اس کی بات کو ٹھکرایا نہ جائے اور اسے ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔[1]
جھوٹ سچ کی ضد ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَo﴾ (آل عمران: ۶۱)
’’پھر گڑ گڑا کر دعا کریں ، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ﴾ (النحل: ۱۰۵)
’’جھوٹ تو وہی لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘
جھوٹ ہر شر کی اصل ہے اور اپنے بدانجام کی وجہ سے ہر مذموم کام کا مرکز ہے۔ اس کے نتائج نہایت خبیثانہ ہوتے ہیں اور جھوٹ سے ہی چغلی کی عادت پڑتی ہے اور چغلی سے بغض پیدا ہوتا ہے اور بغض عداوت اور شقاوت تک لے جاتا ہے۔[2]
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی علامتوں میں سے جھوٹ کو ایک علامت شمار کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَ مَنْ کَانَ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْ نَّفَاقٍ حَتّٰی یَدَعَہَا: اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَ اِذَا عَاہَدَ غَدَرَ، وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذَا خَاصَمَ فَجَرَ)) [3]
|