اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّ فِضٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ﴾ (لقمان: ۱۴)
’’اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا۔‘‘
اقربا کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ﴾ (النساء: ۱)
’’اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ﴾ (الرعد: ۲۱)
’’اور وہ جو اس چیز کو ملاتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ اسے ملایا جائے۔‘‘
تقسیم میراث کے وقت اللہ تعالیٰ قرابت داروں کو دینے کے لیے رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿ وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْہُمْ مِّنْہُ وَ قُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo﴾ (النساء: ۸)
’’اور جب تقسیم کے وقت قرابت والے اور یتیم اور مسکین حاضر ہوں تو انھیں اس میں سے کچھ دو اور ان سے اچھی بات کہو۔‘‘
حدیث میں قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب کی مثالیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین اعمال کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|