Maktaba Wahhabi

266 - 370
انسان اپنے قرابت داروں کے ساتھ کیسے طرح عدل کرے؟ انسان باہمی معاملات، فیصلوں ، اور ماپ تول یا اقوال و اعمال میں اپنے کچھ رشتہ داروں کو اپنے ہی کچھ رشتہ داروں پر ترجیح نہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی﴾ (الانعام: ۱۵۲) ’’اور جب بات کرو تو انصاف کرو خواہ رشتہ دار ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔‘‘ بلکہ ایسے قرابت داروں کے درمیان مثالی اور کامل عدل سے فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ کسی کو انصاف اگر ملے تو کسی اور کے حساب پر نہیں ملنا چاہیے۔ بلکہ صرف استحقاق اور دلیل و برہان کے بل بوتے پر عدل کرنا چاہیے اور اگر دو فریق باہمی جھگڑا لے کر قاضی کے پاس جائیں اور ان میں سے ایک فریق کے ساتھ قاضی کی کچھ ان بن ہو تو وہ اس لیے اس کے خلاف فیصلہ نہ دے چونکہ عدل خالص تقویٰ کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ (المائدۃ: ۸) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر خوب قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ ہم نے گزشتہ سطور میں لکھا کہ عدل ظلم کی ضد ہے۔ کیونکہ ظلم سے مراد کسی چیز کو اس کی مناسب جگہ پر کھنے کی بجائے کہیں اور رکھ دینا ہے جو عدل حکمت اور مصلحت کے منافی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کر دیا۔ چنانچہ حدیث قدسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان بیان کرتے ہیں : ((یَا عِبَادِی اِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِی وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَـلَا تَظَالَمُوا یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ ضَآلٌّ اِلَّا مَنْ ہَدَیْتُہٗ
Flag Counter