ہیں ۔ ان دونوں کے ہوتے ہوئے کوئی رائے لغزش کا باعث نہیں بنتی اور ان دونوں کے ہوتے ہوئے پختہ عزم ختم نہیں ہوتا۔‘‘
عربی شاعر بشاد بن برد نے کہا:
اِذَا بَلَغَ الرَّأْیُ الْمَشْوَرَۃَ فَاسْتَعِنْ
بِرَأْیِ نَصِیْحٍ اَوْ نَصِیْحَۃِ حَازِمٍ
وَ لَا تَجْعَلِ الشُّوْرٰی عَلَیْکَ غَضَاضَۃٍ
فَاِنَّ الْخَوَاضِیَ قُوَّۃً لِلْقَوَادِمِ
’’جب باہمی مشورہ سے رائے طلب کرو تو کسی خیرخواہ کی رائے یا تجربہ کار کی نصیحت قبول کر لو اور باہمی مشورہ کو اپنے لیے غیرت، انا اور عار کا سبب نہ سمجھو۔ کیونکہ پرندے کے پچھلے پر اگلے پروں کو قوت بہم پہنچاتے ہیں ۔ یا جانور کے پچھلے پاؤ ں اگلے پاؤ ں کو قوت فراہم کرتے ہیں ۔‘‘
مشیر میں پانچ صفات کا ہونا ضروری ہے:
۱۔ کمال عقل کے ساتھ تجربہ کار اور ماہر ہونا پروری ہے تاکہ صحیح رائے دے سکے۔
۲۔ تقویٰ اور استقامت۔ کیونکہ یہ دونوں صفات ہر صلاحیت کا مرکزی ستون اور ہر کامیابی کا دروازہ ہیں اور جس پر دین غالب ہو وہ نیت میں مخلص اور عزم میں مستقیم ہو گا۔
۳۔ خیرخواہی اور دلی محبت۔ تاکہ صدق قلب سے رائے دے سکے اور اسی لیے کہا گیا ہے صرف ایسے ماہر سے مشورہ طلب کرو جو حاسد نہ ہو اور ایسے عقل مند سے مشورہ طلب کرو جو کینہ پرور نہ ہو۔
۴۔ غموں اور دکھوں سے سوچ محفوظ ہو۔ کیونکہ ان دونوں بیماریوں کے ہوتے ہوئے انسان صحیح سوچ نہیں سکتا اور نہ ہی اسے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔
۵۔ مشیر ہر قسم کی غرض اور خواہش سے مبرا و بے لوث وہ وگرنہ اس کی رائے فاسد ہو گی۔ تاہم ضروری نہیں کہ اس کی رائے سے کامیابی ملے کیونکہ وہ مجتہد ہو گا۔ لیکن خیرخواہی
|