Maktaba Wahhabi

230 - 370
’’اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘ مسلمانوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ہر معاملے میں باہمی طور پر مشورہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ﴾ (الشورٰی: ۳۸) ’’اور ان کا کام آپس میں مشورہ کرنا ہے۔‘‘ مشورہ کی فضیلت میں علامہ ماوردی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’جان لو! کہ ہر عقل مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی خیرخواہ اور تجربہ کار کے مشورے کے بغیر کسی حکم کو نافذ و جاری نہ کرے اور نہ ہی پختہ عزم کرے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک روایت میں ہے کہ مشورہ ندامت سے بچنے کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے اور ملامت سے بچنے کے لیے ایک مضبوط پناہ گاہ ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگ تین طرح ے ہوتے ہیں : ۱۔ ایک وہ ہوتا ہے جس کو معاملات پیش آتے ہیں تو وہ اپنی عقل کے ذریعے انہیں صحیح طور پر حل کر لیتا ہے۔ ۲۔ ایک وہ آدمی ہوتا ہے جو اپنی مشکلات اہل الرائے کے صائب مشورہ سے حل کر لیتا ہے۔ ۳۔ ایک وہ آدمی ہوتا ہے جو حیران و پریشان رہتا ہے نہ خود نیکی کا حکم دیتا ہے اور نہ ہی کسی خیرخواہ کی مانتا ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’بہترین مدد و حمایت باہمی مشاورت ہے اور بدترین تیاری ظلم و تکبر اور ہٹ دھرمی ہے۔‘‘ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’بے شک مشورہ اور تحقیق رحمت کے دو دروازے ہیں اور برکت کی دو چابیاں
Flag Counter