((لَوْ قَدْ جَائَ مَالُ الْبَحْرِیْنِ اُعْطِیْتُکَ ہٰکَذَا وَ ہٰکَذَا فَلَمْ یَجِیئْ مَالَ الْبَحْرِیْنِ حَتّٰی قُبِضَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَلَمَّا جَائَ مَالَ الْبَحْرِیْنِ -فِیْ عَہْدِ اَبِیْ بَکْرٍ- اَمَرَ اَبُوْبَکْرٍ رضی اللہ عنہ فَنَادٰی: مَنْ کَانَ لَہٗ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم عِدَۃٌ اَوْ دَیْنٌ فَلْیَاْتِنَا، فَاَتَیْتُہٗ، قُلْتُ لَہٗ: اِنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم قَالَ لِیْ: کَذَا وَ کَذَا۔ فَحَثٰی لَہٗ حَثِیَّۃً، فَعَدَدْتُہَا، فَاِذَا ہِیَ خَمْسُ مِائَۃً فَقَالَ لِیْ: خُذْ مِثْلَیْہَا)) [1]
’’اگر بحرین سے آجاتا تو میں تجھے اتنا اتنا مال دیتا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر اشارہ کیا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک بحرین سے مال نہ آیا۔ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بحرین سے مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اعلان کروایا کہ جس کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرض لینا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ (بقول راوی) چنانچہ میں ان کے پاس گیا اور بتایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار ایسے ایسے فرمایا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لپ بھری میں نے انہیں شمار کیا تو وہ پانچ سو درہم تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: ان سے دو چند لے لو۔
آخری مثال:
مسلمانوں نے ایرانی علاقوں میں ایک قلعے کا محاصرہ کر لیا اور قریب تھا کہ مسلمان اہل قلعہ پر یلغار کر دیں ۔ اچانک پتا چلا کہ ایک مسلمان نے اپنی طرف سے اہل قلعہ کو امان لکھ کر دے دی اور ان کی طرف ایک تیر کے ساتھ باندھ کر پھینک دی۔ عام مسلمانوں نے کہا کہ اس اکیلے کی طرف سے دی ہوئی امان معتبر نہیں ۔ قلعہ والوں نے کہا ہمیں تمہاری باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔ چنانچہ مجاہدین کے سپہ سالار نے یہ بات سیدنا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف لکھ بھیجی۔ انہوں نے جواب میں حکم دیا کہ تمام مسلمان اس ایک مسلمان کی دی ہوئی
|