اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی توجہ اپنے اعمال کے دوران صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا ہو اور ہر قسم کی دنیوی اغراض و خواہشات، منافقت اور ریاکاری سے مکمل دور ہو۔ اس طرح اس کے اپنی ذات کے ساتھ اخلاق ان اصولوں پر استوار ہوں گے:
۱۔ اپنے نفس کو اللہ کی عبودیت اور اس کی شریعت کی تابعداری کا پابند کرنا۔
۲۔ ہر حال میں اللہ کے لیے خالص ہو کر عمل کرنا۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے ساتھ مکمل رضامندی
۴۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے ادب کے ساتھ پیش آنا جو اس کی ذات مقدس اور اسماء حسنیٰ کے لائق ہے۔
۵۔ لوگوں اور تمام مخلوقات کے ساتھ حسن، خلق و ادب کے ساتھ پیش آنا۔
۶۔ اپنے تمام معاملات میں عدل کا دامن نہ چھوڑنا اور ظلم سے دور ہونا۔[1]
دوسروں کے ساتھ معاملات میں کیسے اخلاق پیش کرنے چاہئیں ؟
دوسروں سے مراد تمام مسلمان خاندانی افراد اور اقارب و احباب ہیں ۔
خاندان کے ساتھ:
میاں بیوی جو خاندان کی اساس ہیں ان کے باہمی تعلقات منہج الٰہی اور اس کے خوف پر مبنی ہوں ۔ خصوصاً جب یہ منہاج باہمی محبت، رحمت اور احسان کی اساس ہے۔ بلکہ منہاج الٰہی خود غرضانہ مادی تعلقات چاہے وہ معیشت میں ہوں یا برائے ضرورت ہوں ان سے دور لے جاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً﴾ (الروم: ۲۱)
’’اور اس نے تمھارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی۔‘‘
والدین کے ساتھ:
والدین کے ساتھ خلق احسان والا معاملہ فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
|