بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔ اور مجھے بابرکت بنایا جہاں بھی میں ہوں اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی، جب تک میں زندہ رہوں ۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے سرکش، بدبخت نہیں بنایا۔ اور خاص سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوں گا اور جس دن زندہ ہو کر اٹھایا جاؤ ں گا۔ یہ ہے عیسیٰ ابن مریم۔ حق کی بات، جس میں یہ شک کرتے ہیں ۔ کبھی اللہ کے لائق نہ تھا کہ وہ کوئی بھی اولاد بنائے، وہ پاک ہے، جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اس سے صرف یہ کہتا ہے کہ ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوجاتا ہے۔ اور بے شک اللہ ہی میرا رب اور تمھارا رب ہے، سو اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔‘‘
۳۔ قرآن کریم میں طویل قصوں کی مثالیں :
قرآن کریم میں طویل قصوں کی مثالیں بکثرت موجود ہیں ، سورۂ یوسف میں یوسف علیہ السلام کا قصہ، سورۂ قصص میں موسیٰ علیہ السلام کا قصہ، سورۂ کہف میں اصحاب کہف کا قصہ، موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ، ذوالقرنین کا قصہ وغیرہا۔
قرآنی قصص کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاق فاضلہ کی تربیت کے لیے قرآن کریم میں قصے کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے اور اس سے دلوں کو کس قدر تثبیت ملتی ہے اور انسان غور و فکر کا عادی بن جاتا ہے اور قصے سے عبرت حاصل کرنا اس کے لیے کس قدر آسان ہوتا ہے۔ قصص نبویہ بھی اپنی اہمیت و تربوی امتیازات کے لحاظ سے قرآن کے قصوں سے کم اہمیت نہیں رکھتے۔ لیکن جب قصص نبویہ کا فکر و تدبر سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی قصوں کی نسبت نبوی قصے اہداف کی تخصیص اور تفصیل میں ایک علیحدہ پہچان رکھتے ہیں ۔
بیشتر احادیث نبویہ قصوں کی صورت میں مروی ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مواعظ میں قصوں کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اس کے لیے ہمیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے
|