((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم لَمْ یَسْاَلْ شَیْئًا عَنِ الْاِسْلَامِ اِلَّا اَعْطَاہُ، قَالَ فَاَتَاہُ رَجُلٌ فَاَمَرَ لَہٗ بِشَائٍ کَثِیْرٍ بَیْنَ جَبَلَیْنِ مِنْ شَائِ الصَّدَقَۃِ، قَالَ: فَرَجَعَ اِلٰی قَوْمِہٖ، فَقَالَ: یَا قَوْمِ اَسْلِمُوْا فَاِنَّ مُحَمَّدًا یُعْطِیْ عَطَائَ مَنْ لَا یَخْشَی الْفَاقَۃَ)) [1]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی اسلام لانے کے لیے کسی چیز کا سوال کرتا تو آپ اسے وہ چیز ضرور عطا کر دیتے۔
بقول راوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دو پہاڑیوں کے درمیان صدقہ کی جو بکریاں ہیں سب اسے دے دو۔ بقول راوی: وہ آدمی اپنی قوم والوں کے پاس گیا اور کہا: اے قوم والو! تم اسلام لے آؤ ۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عطا کرتے وقت فاقہ سے نہیں ڈرتے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حیا:
روایت میں ہے کہ
((اَشَدَّ حَیَآئً مِّنَ الْعَذْرَآئِ فِیْ خِدْرِہَا وَکَانَ اِذَا کَرِہَ شَیْئًا عَرَفْنَاہٗ فِیْ وَجْہِہٖ))[2]
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری دوشیزہ سے زیادہ شرمیلے اور حیا والے تھے۔ وہ دوشیزہ جو پردہ نشین ہوتی ہے اور جب آپ کسی چیز کو ناپسند کرتے تو ہم آپ کے چہرے سے اس کا اندازہ کر لیتے۔‘‘
(۴)… عملی تجربے اور غور و فکر کے ساتھ تربوی اسلوب
انسانی زندگی میں کچھ ایسے اعمال ہوتے ہیں کہ انسان ان میں غور و فکر، تحقیق اور عملی تجربے کے بغیر ان سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا اور ایسے اعمال میں ان دیکھی تقلید عیب شمار
|