ہوئے آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور یہ الفاظ مسلسل دہرانے لگے یہاں تک کہ ہم نے کہا: کاش! آپ خاموش ہو جائیں ۔‘‘
سچ بے شمار اخلاق عالیہ اور فضائل کریمانہ کی بنیاد ہے۔ اس میں ایفائے عہد بھی ہے اور خلوص عمل بھی ہے۔ اس میں احقاق حق بھی ہے اور ابطال باطل بھی ہے۔ یہ جھوٹ کی ضد ہے جو تمام رذائل کا خزانہ ہے اور اخلاق قبیحہ کا مرکز ہے۔ اسی لیے حقیقی مومن کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
امانت و دیانت اور ایفائے عہد:
امانت احکام تکلیفیہ کی اساس ہے۔ اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکلف ٹھہرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا﴾
(الاحزاب: ۲۷)
’’بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے۔‘‘
انسان نے وہ امانت تکلیف اٹھا لی اور پہاڑوں نے انکار کر دیا اور انہوں نے اس سے معذرت کر لی اور اپنی عاجزی و بے بسی کا اعتراف کیا۔ نیز امانت کا بطور خلق و صفت ایک اور معنی بھی ہے۔ سابقہ تکلیفی معنی کی نسبت بہت محدود ہے۔
ایفائے عہد دونوں اطراف اور دونوں فریقوں پر لازم ہوتا ہے اور جو وعدہ کرتا ہے اس کے ذمہ ایفائے عہد کی تنفیذ لازمی ہوتی ہے۔ امانت اور ایفائے عہد مومن کی صفات میں سے ہیں اور خیانت و دھوکہ ان دونوں صفات کی ضد ہیں اور یہ دونوں منافقوں کی صفات ہیں ۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَ مَنْ کَانَ فِیْہِ خَصْلَۃٌ
|