’’اور ان پر ابراہیم کی خبر پڑھ۔ جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟ انھوں نے کہا ہم کچھ بتوں کی عبادت کرتے ہیں ، پس انھی کے مجاور بنے رہتے ہیں ۔ کہا کیا وہ تمھیں سنتے ہیں ، جب تم پکارتے ہو؟ یا تمھیں فائدہ دیتے، یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟‘‘
مذکورہ بالا مکالمات جیسے بکثرت مکالمات قرآن کریم میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی غرض سے بیان ہوئے ہیں ۔ ان مکالمات میں متعدد توجیہات و تنبیہات بیان ہوئی ہیں جو مسلمانوں کے دلوں کے اندر عادات محمودہ راسخ کر دیتی ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ آباء و اجداد کے قصے اگر دروس عبرت ہوں تو وہ بھی بیان کر دئیے جاتے ہیں ۔ قرآن کریم میں عموماً مکالماتی اسلوب احقاق الحق اور ابطال الباطل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سننے والوں کا تعلق خواہ کہیں سے ہو اور ان کی ثقافتیں خواہ کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں عقل سلیم رکھنے والے ہر شخص کو قرآنی انداز تخاطب مطمئن، مبہوت اور لاجواب کر دیتا ہے۔
ایسے مکالمات کا بنیادی مقصد اور اساسی ہدف حق کے متلاشی کو صحیح دلیل کے ذریعے حق تک پہنچانا ہوتا ہے۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان مکالمہ ہوا اور نوح علیہ السلام کا ان کی قوم والوں کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ اسی طرح دیگر انبیاء علیہم السلام مثلاً شعیب اور صالح علیہما السلام اور ان کی اقوام کے درمیان جو مکالمہ ہوا، وغیرہ۔
سنت نبویہ سے مکالمات کی مثالیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی تعلیم و تربیت کے حد درجہ آرزو مند تھے اور ان کی تعلیم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکالماتی اسلوب کو بہت زیادہ پسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدید طور پر تمنا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دین سیکھنے کے لیے آپ سے سوالات کرے اور آپ اسے جوابات کے ذریعے مطمئن کر دیں ۔
صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے خطاب کر رہے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|