لیے مضر ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا﴾ (الکہف: ۲۸)
’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھ جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں ، اس کا چہرہ چاہتے ہیں اور تیری آنکھیں ان سے آگے نہ بڑھیں کہ تو دنیا کی زندگی کی زینت چاہتا ہو اور اس شخص کا کہنا مت مان جس کے دل کوہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا۔‘‘
۳۔ حسن اخلاق: جب دوست حسن اخلاق سے مزین ہو گا تو جو اعمال اس کے پیش نظر ہوں گے وہ بھلائی پر مبنی ہوں گے اور دوستی کے تعلقات میں خرابی سے بہت دور ہوں گے۔
۴۔ صداقت اور مؤاخات کی خواہش اور عزم دونوں اطراف سے ہونا چاہیے تاکہ تعلقات کو دوام حاصل ہو اور وہ جاری رہیں ۔ کچھ ایسے نیک لوگ ہوتے ہیں جو صداقت و اخوت کے بغیر نہیں رہنا چاہتے۔
(۷) ترغیب و ترہیب کے ذریعے تربوی اسلوب:
۱۔ الترغیب سے مراد ایسا وعدہ جو مخاطب کا محبوب ہو اور وہ اس کے حصول کا متمنی ہو۔ چاہے وہ مصلحت کی صورت میں ہو یا مقدرہ و مؤکدہ مدت تک فائدہ کا باعث ہو۔ جو بھلائی پر مبنی ہو۔ شکوک و شبہات سے پاک ہو۔ عمل صالح کے ردِّ عمل کے طور پر ہو یا مضرت و مشقت آمیزی سے بچانے کا باعث ہو۔ یا اگر برا عمل بھی ہو تو اس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو اور یہ بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے۔
۲۔ الترہیب: ترہیب سے مراد کسی گناہ یا غلطی کے ارتکاب کے نتیجے میں وعید، چیلنج اور تخویف کہ جس عمل سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہو یا اللہ تعالیٰ کے احکام کی ادائیگی میں سستی و کاہلی کی پاداش میں سزا کا ڈر اور دنیا یا گناہ گار و بدکردار اور غافل انسان کے
|