((اَیُّہَا النَّاسُ مَنِ ارْتَکَبَ شَیْئًا مِنْ ہٰذِہِ الْقَاذُوْرَاتِ فَاسْتَتَرَ فَہُوَ فِیْ سِتْرِ اللّٰہِ، وَ مَنْ اَبْدٰی صَفْحَتَہٗ اَقَمْنَا عَلَیْہِ الْحَدَّ)) [1]
’’اے لوگو! ان نجاستوں میں سے جو کوئی کسی ایک کا ارتکاب کرے تو اسے پردہ پوشی کرنی چاہیے تو وہ اللہ کے پردے میں رہے گا اور جس کا سیاہ عمل ہمارے سامنے آ جائے گا، ہم اس پر حد قائم کریں گے۔‘‘
گویا اسلام میں سزا کا ہدف و غرض معاشرے میں فضائل کا فروغ ہے اور معاشرے میں فضائل کا فروغ ہے او معاشرے میں رذائل کے فروغ و انتشار کو محدود و محو کرنا ہے۔ تاکہ بداخلاقی پھل پھول نہ سکے۔ جس کا واحد مطلب دین، نفس، عقل، نسل اور مال کی حفاظت کے ذریعے عوام کی مصلحتیں اور ان کے منافع ہیں ۔[2]
ارتداد کی حد قائم کرنے سے دین محفوظ ہوتا ہے اور قصاص یا بغاوت کی حد قائم کرنے سے جان کا تحفظ ہوتا ہے اور شراب نوشی کی ح قائم کرنے سے عقل محفوظ ہوتی ہے۔ حد زنا کے قیام سے نسل انسانی محفوظ ہو جاتی ہے اور چوری کی حد قائم کرنے سے مال محفوظ ہو جاتے ہیں اور اس طرح لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہو جاتی ہیں ۔ عقیدہ محفوظ ہو جاتا ہے اور انسان کو امن و سکون حاصل ہو جاتا ہے نیز اس کی کمائی یعنی مالی حقوق کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔
دوم: اسلام میں حدود اور اخلاق لازم و ملزوم ہیں :
ہم کہتے ہیں کہ حد اللہ تعالیٰ کا حق ہے جس کا نفاذ واجب ہے اور اس کی مقدار مقرر ہوتی ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَقِیْمُوْا حُدُوْدَ اللّٰہِ فِیْ الْقَرِیْبِ وَ الْبَعِیْدِ وَ لَا تَاْخُذْکُمْ فِیْ اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ)) [3]
|