ہے۔ وہ اپنی خوش دلی اور اطمینان نفس سے سخاوت کرتا ہے۔ اسی معنی میں عربی شاعر زہیر بن ابی سلمیٰ اپنے ممدوح ہرم بن سنان کے جود، کرم اور سخاوت کے بارے میں کہتا ہے:
تَرَاہُ اِذَا مَا جِئْتَہٗ مُتَہَلِّلًا
کَاَنَّکَ تُعْطِیْہِ الَّذِیْ اَنْتَ سَائِلُہٗ
’’وہ (ہرم) جب مسکراتا ہوا آ رہا ہوتا ہے اور آپ اسے دیکھ لیں تو ایسے لگے گا کہ جس چیز کا سوال آپ اس سے کرنے والے تھے (وہ اتنا خوش ہے) گویا کہ وہی چیز آپ نے اسے دے دی ہے۔‘‘
علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں لکھا:
’’بادیہ نشین شہر میں رہنے والوں سے زیادہ شجاعت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اس کا اصول یہ ہے کہ انسان اپنی عادتوں اور اپنی مالوف صفات سے بنتا ہے اور وہ اپنی طبیعت اور مزاج کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ تو جو شخص ایسے احوال میں پلا بڑھا ہو جو اس کے اخلاق، صفات و ملکات اور عادات بن گئے ہوں تو وہی صفات اس کی فطرت اور طبیعت بن جاتی ہیں ۔‘‘[1]
دوم: ہیئت (ماحول):
تکوین اخلاق میں ماحول کا عادت سے کم اثر نہیں ۔ انسان کی ہیئت سے مراد اس کا ماحول ہے جو بلا واسطہ اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یا بالواسطہ اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جب سے وہ اپنی ماں کے پیٹ میں نوزائیدہ حمل ہوتا ہے اور بالآخر پیدائش کے بعد اسے مقررہ وقت پر موت آ دبوچتی ہے۔
تو ہر وہ چیز جو انسان کے جذبات و احساسات و کیفیات پر اثر کرتی ہے اور اس کی صفات کی تکوین میں کردار ادا کرتی ہے وہ اس کی ہیئت کہلاتی ہے اور اس کی تکوین اخلاق کا ایک اہم عامل شمار ہوتی ہے۔ چاہے وہ ہیئت طبعی (آب و ہوا) ہو، جیسے کوئی علاقہ، اس کی
|