Maktaba Wahhabi

310 - 370
فائدہ:… منافست سے مراد دنیا کے حصول کے لیے دوسروں سے جدال و قتال کرتا تاکہ دوسروں پر غلبہ حاصل ہو جائے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَیْسَ الْغِنٰی عَنْ کَثْرَۃِ الْعِرْضِ (اَلْمَالِ وَالْمَتَاعِ) وَ لٰکِنَّ الْغِنٰی غِنَی النَّفْسِ)) [1] ’’زیادہ سامان ہونے سے سخاوت نہیں آتی لیکن سخاوت دل کے سخی ہونے سے آتی ہے۔‘‘ صدق گوئی: امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ صدق کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’صدق بہت بڑی قوم کی منزل ہے۔ اسی سے تمام سالکین راہ سلوک کی منازل بنتی ہیں اور یہ وہ محکم راستہ ہے کہ جو اس راستے پر نہیں چلتا تو وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس کا زادِ راہ لوٹ لیا جائے اور وہ ہلاک ہو جائے اسی صدق کے ذریعے اہل ایمان اہل نفاق سے پہچانے جاتے ہیں اور اہل جنت اسی کے ذریعے اہل جہنم سے علیحدہ ہوتے ہیں اور اللہ کی زمین میں صدق ہی اللہ کی وہ تلوار ہے کہ جس چیز پر پڑتی ہے اسے کاٹ کر رکھ دیتی ہے اور جب بھی باطل کے روبرو جاتی ہے اسے پچھاڑ کر تہہ و تیغ کر دیتی ہے۔ جو اس کے ساتھ داؤ چلتا ہے اس کا داؤ کبھی ناکام نہیں ہوتا اور جو اسے زبان کا زیور بناتا ہے وہ ہمیشہ اپنے مدمقابل پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ صدق اعمال کی روح ہے اور احوال و کیفیات کا محل ہے اور ہولناکیوں کی یلغار میں یہ مضبوط پناہ گاہ ہے اور صدق ہی وہ دروازہ ہے جس کے ذریعے اصحاب وصل جلالت و تکریم والے مالک تک پہنچتے ہیں ۔ یہی دین کی عمارت کا اساسی پتھر ہے اور یقین کے خیمے کا مرکزی ستون
Flag Counter