ہے اس کا درجہ نبوت کے درجے کے بعد آتا ہے جو تمام جہانوں کے درجات ہیں اور جنات میں ان کے مساکن کے نیچے چشمے اور دریا بہتے ہیں جس طرح کہ ان کے دلوں سے دارِ آذخرت میں ان کے دلوں تک نصرت و مدد کا ایک مربوط پل معلق ہے۔‘‘[1]
وہ مزید لکھتے ہیں :
’’صدق باطن و ظاہر قول و عمل اور خبر و واقع کی موافقت کو کہتے ہیں ۔‘‘[2]
صدق کسی چیز کے متعلق اس خبر کو کہتے ہیں جیسی حالت اس چیز کی ہوتی ہے۔[3]
اسی لیے رب تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ مومنین کا لازمہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo﴾ (التوبۃ: ۱۱۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔‘‘
یہ دونوں اصناف (مرد و زن) سے مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ﴾ (الاحزاب: ۳۵)
’’اور سچے مرد اور سچی عورتیں ۔‘‘
صدق باعث خیر و نجات ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَہُمْ﴾ (محمد: ۲۱)
’’تو اگر وہ اللہ سے سچے رہیں تو یقینا ان کے لیے بہتر ہو۔‘‘
صدق انبیاء کی صفت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور ادریس علیہما السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
|