﴿ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاo﴾ (مریم: ۴۱، ۵۶)
’’بے شک وہ بہت سچا تھا، نبی تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِوَ کَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاo﴾ (مریم: ۵۴)
’’یقینا وہ وعدے کا سچا تھا اور ایسا رسول جو نبی تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اسحاق و یعقوب علیہما السلام کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَ جَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّاo﴾ (مریم: ۵۰)
’’اور انھیں سچی ناموری عطا کی، بہت اونچی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان مومنوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا جو اپنے وعدے سچ کرتے ہیں اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں :
﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَجْبَہٗ وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِہِمْ﴾ (الاحزاب: ۲۳-۲۴)
’’مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنھوں نے وہ بات سچ کہی جس پر انھوں نے اللہ سے عہد کیا، پھر ان میں سے کوئی تو وہ ہے جو اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وہ ہے جو انتظار کر رہا ہے اور انھوں نے نہیں بدلا، کچھ بھی بدلنا۔ تاکہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا بدلہ دے۔‘‘
سچ اور جھوٹ دونوں آخرت کی جزا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کی ترغیب دی اور جھوٹ سے تنبیہ فرمائی۔ کیونکہ جس شخص کی جو بھی عادتِ لازمہ بن گئی اس کا انجام ویسا ہی ہو گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَاِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِیْ اِلَی الْبِرِّ وَ اِنَّ الْبِرَّ یَہْدِیْ
|