Maktaba Wahhabi

265 - 370
﴿ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَ اہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلًا﴾ (النساء: ۳۴) ’’اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو، سو انھیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہو جاؤ اور انھیں مارو، پھر اگر وہ تمھاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔‘‘ انسان کا اپنی اولاد کے ساتھ عدل کیسے ہو گا؟ انسان اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی پرورش میں مساوات قائم رکھتا ہے۔ ان کے بچپن ہی سے انہیں نماز اور دیگر عبادات کی پابندی سکھاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مُرُوْا اَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ لِسَبْعٍ، وَ اضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا لِعَشْرٍ، وَ فَرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ)) [1] ’’تم اپنی اولاد کو سات سال کی عمر تک نماز کا حکم دو اور ترک نماز پر انہیں دس سال کی عمر میں تادیباً سزا دو اور ان کے بستر علیحدہ علیحدہ کر دو۔‘‘ انسان اپنی اولادہ میں سے کسی کو بھی معاملہ یا عطیہ میں کسی پر ترجیح نہ دے۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی: ((اِنِّیْ نَحَلْتُ ابْنِیْ ہٰذَا غُلَامًا کَانَ لِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم : اَکُلَّ وَلَدِکَ نَحَلْتَہٗ مِثْلَ ہٰذَا؟ قَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم اُرْدُدْہُ، فَاِنِّیْ لَا اَشْہَدُ عَلٰی جَوْرٍ)) [2] ’’بے شک میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام عطا کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو غلام عطا کیے ہیں ؟ اس نے کہا نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کو واپس لے لو کیونکہ میں ظلم کا گواہ نہیں بنوں گا۔‘‘
Flag Counter