Maktaba Wahhabi

276 - 370
جائے اور ان پر ترس کھایا جائے۔ دوستوں بھائیوں اور قرابت داروں کے ساتھ احسان یوں ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ باہمی معاملات خوش اسلوبی اور نرم دلی سے طے کرنا چاہئیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَثَلُ الْمُؤْمِنِینَ فِیْ تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَکٰی مِنْہٗ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہٗ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمّٰی )) [1] ’’مومنوں کی باہمی محبت اور باہمی رحم دلی کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب جسم سے کوئی ایک عضو بیمار ہو تو سارا جسم بیداری اور بخار محسوس کرتا ہے۔‘‘ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی آیات گزر چکی ہیں ۔ بدسلوکی کرنے والے کو معاف کر کے اس پر احسان کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیَِّٔۃُادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo﴾ (فصلت: ۳۴) ’’اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔‘‘ اس طرح احسان عام و شامل ہے۔ اپنی صورتوں میں وہ عام ہے اور تمام صفات خیر اور اخلاق حسنہ میں شامل ہوتا ہے۔ بلکہ تمام معاملات، مشارکات اور آخرت میں جزا حسن لینے کے لیے احسان کرنا ضروری ہے۔ قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کی تفصیل: قرابت داروں میں انسان کے والدین، اولاد، سگے رشتہ دار اور دور کے رشتہ دار شامل ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک مادی بھی ہوتا ہے اور معنوی بھی ہوتا ہے۔ اس فعل کی رغبت
Flag Counter