حدیث نبوی میں یہ وضاحت ہے کہ اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمان ائمہ اور عوام کے لیے نصیحت دو طرح کی ہوتی ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اتباع اور اس کی محرمات سے اجتناب کر کے خیرخواہی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی خیرخواہی پر عمل کرتا ہے اور یہ واجب ہے۔
۲۔ نفلی خیرخوواہی: اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے اپنے نفس کی محبت کو قربان کر دینا کہ ابتدا اس عمل سے کی جائے جس میں اللہ کی رضا ہو۔
کتاب اللہ کی نصیحت سے مراد اللہ کے لیے اس کی کتاب سے محبت اس کا فہم حاصل کرنا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ اللہ کے رسول کی خیرخواہی بھی دو طرح سے ہوتی ہے: (۱) آپ کی زندگی میں (۲) آپ کی وفات کے بعد[1]
۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی خیرخواہی آپ کی محبت، اطاعت، نصرت اور آپ کی معاونت کے ذریعے کی جاتی تھی۔
۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کر کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اپنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیرخواہی کی جا سکتی ہے اور ائمہ مسلمین کی خیرخواہی ان کی اطاعت کو اپنے اوپر واجب کر لینے سے ہوتی ہے جب تک وہ عدل سے حکومت کریں اور آخر میں عام مسلمانوں کی خیرخواہی ان سے محبت کر کے اور خوشی و غمی کے دوران ان کے ساتھ شامل ہو کر کی جائے گی۔
وعظ:
اسلامی تربیت و تعلیم کا اہم ترین اسلوب وعظ و تذکیر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo﴾ (الذاریات: ۵۵)
’’اور نصیحت کر، کیونکہ یقینا نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔‘‘
|