سامنے جھوٹ نہ بولنے کی کس طرح تاکید کرتے تھے اس کا اندازہ سیدنا عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہو سکتا ہے، وہ فرماتے ہیں :
((دَعَتْنِیْ اُمِّیْ یَوْمًا وَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم قَاعِدٌ فِیْ بَیْتِنَا، فَقَالَتْ: تَعَالْ اُعْطِیْکَ، فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مَا اَرَدْتِّ اَنْ تُعْطِیَہٗ؟ قَالَتْ: اَرَدْتُّ اَنْ اُعْطِیَہٗ تَمْرًا، فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم : اَمَا اِنَّکَ لَوْ لَمْ تُعْطِہٖ شَیْئًا کُتِبَتْ عَلَیْکِ کِذْبَۃٌ))[1]
’’ایک دن مجھے میری ماں نے بلایا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے۔ میری ماں نے کہا: ادھر آ میں تجھے کچھ دوں گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا تو اسے کیا دینا چاہتی ہے؟ میری ماں نے کہا: میں اسے ایک کھجور دینا چاہتی ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو نے اسے کچھ نہ دیا ہوتا تو تجھ پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔‘‘
جھوٹ کے اسباب کے بارے میں ماوردی نے لکھا ہے: [2]
ا: نفع کے حصول اور نقصان سے بچنے کے لیے:
جھوٹ زیادہ محفوظ اور زیادہ آسان ہوتا ہے۔ چنانچہ نفس اس دھوکے میں آ کر جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتا ہے۔ نیز نفس زیادہ لالچی ہے۔ اکثر اوقات جھوٹ امید و تمنا سے بہت دور لے جاتا ہے اور اس برے انجام کے زیادہ قریب کر دیتا ہے جس کا خوف ہوتا ہے کیونکہ قبیح حسن نہیں ہو سکتا اور شر بھلائی نہیں بن سکتا۔ اسی لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں سچ کی وجہ سے نیچا ہو جاؤ ں اگرچہ اس کی وجہ سے کوئی نیچا نہیں ہوتا تو مجھے یہ اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں جھوٹ بول کر عالی شان بن جاؤ ں ۔ اگرچہ جھوٹ کی وجہ سے کوئی عالیشان نہیں بنتا۔
|