سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، بے شک اللہ عزوجل فرماتا ہے:
((اِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِیْ بِحَبِیْبَتَیْہِ فَصَبَر، عَوَضْتُہٗ مِنْہُمَا الْجَنَّۃَ)) [1]
’’جب میں اپنے بندے کی اس کی دو محبوب ترین چیزوں (یعنی دو آنکھوں ) سے آزمائش کروں اور وہ صبر کرے تو میں ان دونوں کے بدلے اسے جنت دوں گا۔‘‘
سیدنا صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((عَجَبًا لِلْاَمْرِ الْمُوْمِنِ اَنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ، وَ لَیْسَ ذٰلِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُوْمِنِ، اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّائٌ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ، وَ اِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّائٌ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ))[2]
’’مومن کا معاملہ کتنا عجیب ہے! اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور یہ خصوصیت صرف مومن ہی کو حاصل ہے۔ اگر اسے کوئی خوشی ملے تو وہ شکر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بھلائی کا باعث ہے اور اگر اسے کوئی ضرر پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتری کا باعث بنتا ہے۔‘‘
۲۔ غصہ پی جانا اور مشتعل نہ ہونا:
بے شک لوگوں کے ساتھ معاملہ صبر کا محتاج ہے اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ مل کر رہنا اور ان کے ساتھ معاملات کرنا زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے اور ایک مسلم انسان لوگوں کے ساتھ اپنا ہر معاملہ صبر کے ذریعے احسن انداز میں طے کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًاo﴾ (الفرقان: ۲۰)
’’اور ہم نے تمھارے بعض کو بعض کے لیے ایک آزمائش بنایا ہے۔ کیا تم صبر کرو
|