((مَرَّ النَّبِیُّ عَلَی امْرَاَۃٍ تَبْکِیْ عِنْدَ قَبَرٍ فَقَالَ: اِتَّقِی اللّٰہَ وَ اصْبِرِیْ، فَقَالَتْ: اِلَیْکَ عَنِّیْ فَاِنَّکَ لَمْ تُصِبْ بِمُصِیْبَتِیْ -وَ لَمْ تَعْرِفْہُ- فَقِیْلَ لَہَا: اِنَّہُ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَاَتَتْ بَابَ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہٗ بَوَّابِیْنَ، فَقَالَتْ: لَمْ اَعْرِفْکَ، فَقَالَ: اِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی)) [1]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھ کر رو رہی تھی۔ آپ نے اسے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ اس عورت نے کہا: آپ اپنا کام کیجیے کیونکہ آپ کو میری مصیبت کا علم نہیں اور اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا۔ اسے بتایا گیا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں ۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آئی تو وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا۔ اس عورت نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہچانا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ن فرمایا: صدمہ کی ابتدا کے وقت اصل صبر ہوتا ہے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَ لَا وَصَبٍ وَ لَا ہَمٍّ وَ لَا حَزَنٍ، وَ لَا اَذًی وَ لَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکَۃِ یُشَاکُہَا اِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ)) [2]
’’مسلمانوں کو کوئی تھکاوٹ، پریشانی، دکھ اور درد پہنچتا ہے اور کوئی اذیت اور غم حتیٰ کہ کوئی کانٹا جو وہ نکالتا ہے تو اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
|